کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 4
متعلق ’خوش گفتاری‘ کا مظاہرہ ان الفاظ میں کرچکے تھے: ”حکومت کسی سٹریٹ پاور سے نہیں ڈرتی۔ جوتا دکھانے والوں کے سر پر جوتے برسائیں گے۔ حکومت دین کی اشاعت کے لبادے میں منافرت پھیلانے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹے گی۔“ (انصاف : ۱۰ /دسمبر ۲۰۰۱ء) موصوف نے یہ بیان دارالعلوم کورنگی کے موقع پر مفتی رفیع عثمانی ، جسٹس تقی عثمانی اور دیگر علماءِ کرام سے گفتگو کے دوران دیا، گویا کہ ایک رسمی مروّت اور لحاظ کی جو توقع ایسے موقعوں پر کی جاتی ہے، وہ اس کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے بھی قاصر رہے۔ اس وقت جبکہ بھارت نے مملکت ِپاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے سنگین خطرات پیدا کردیے ہیں ، حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان حالیہ محاذ آرائی کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد سے مطابقت نہیں رکھتی۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات سے قومی یک جہتی کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی مقصد مطلب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اسی بات کا احساس کرتے ہوئے ۲۷/د سمبر ۲۰۰۱ء کو صدر جنرل پرویز مشرف اور علماء کرام کے درمیان وزارت مذہبی اُمور نے ایک ملاقات کا اہتمام کرایا۔ اس ملاقات میں ۳۶ علماء اور جنرل پرویز مشرف کے ہمراہ تقریباً ایک درجن سرکاری اہل کار اور وزراء موجود تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ میں ایک عرصہ سے خواہش رکھتا تھا کہ علماء سے ملاقات کروں لیکن موقع نہ مل سکا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مختلف اُمور، حالاتِ حاضرہ اور حکومتی پالیسی کے متعلق اظہارِ خیال کیا۔ فرد و ملت کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے جنرل مشرف نے پاکستان کی قومی اور بین الاقوامی صورتحال کا تجزیہ پیش کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی طرف سے حقوق اللہ کے بارے میں تنگ نظری اور حقوق العباد کے بارے میں بے اعتنائی کا شکوہ کیا۔ اس طرح قومی سطح پر مسلکی تعصب اور مذہبی دھڑے بندی کی صورتحال پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالم اسلام کی واحد جوہری قوت ہے جس کی طرف پوری اسلامی دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ اپنے خطاب میں جنرل پرویز مشرف نے دینی مدارس کے علمی اور رفاہی کردار کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ برصغیر کے مثالی ویلفیئر (فلاحی) اِدارے ہیں جن میں لاکھوں طلباء اور اساتذہ بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے دین و علم پھیلا رہے ہیں لیکن دورِ حاضر میں انہیں اعلیٰ مقاصد کے لئے منظم اور دین و دنیا کا جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم نیوکلیئرپاور ضرور ہیں لیکن یہاں بعض مدارس اور مساجد لوگوں میں منافرت پھیلاتے ہیں ۔ انہوں نے بعض فرقہ وارانہ تنظیموں کا نام لیتے ہوئے بتایا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔ انہوں نے علماء سے اپیل کی کہ وہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف حکومت سے تعاون کریں ۔ جنرل پرویز مشرف نے دینی مدارس کے خلاف شائع ہونے والی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ