کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 38
کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ﴿وَجَعَلُوْا الْمَلاَئِکَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ إِِنَاثًا﴾(الزخرف:۱۹ ) ”ان لوگوں نے فرشتوں کو، جو دراصل رحمن کے بندے ہیں ، دیویاں بنا رکھا ہے۔“ اِن مشرکین کاایک دیوتا ’ہبل‘ تھا۔ ابوسفیان سپہ سالارِ مشرکین مکہ نے جنگ اُحد کے اختتام پر أعلیٰ الھبل کہہ کر اس کے نام کا نعرہ لگایا تھا لیکن زیادہ تر ان کی دیویوں کی ہی پرستش ہوتی تھی۔ ایک دیوی کا نام ’لات‘ (الٰہ کا موٴنث) تھا جسے اللہ تعالیٰ کی بیوی سمجھا جاتا تھا۔دوسری دیوی کا نام ’عزیٰ‘ (عزیز کی موٴنث) اور تیسری کا نام ’منات‘ تھا جو غالباً اللہ تعالیٰ کی لڑکی سمجھی جاتی تھی۔ لات کا استھان طائف میں تھا اور بنو ثقیف اس کے پجاری اور اس حد تک معتقد تھے کہ عام الفیل میں جب ابرہہ ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ پر چڑھائی کرنے آیا تو ان ظالموں نے محض آستانہ لات کو بچانے کی خاطر اور مکہ کا رستہ بتلانے کے لئے اپنے آدمی فراہم کئے حالانکہ باقی اہل عرب کی طرح اہل ثقیف بھی یہ مانتے تھے کہ کعبہ اللہ کا گھر ہے۔ عزیٰ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا استھان مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلةمیں تھا۔ قریش اور دوسرے قبائل عرب اس کی زیارت کو آتے، نذریں چڑھاتے اور اس کے لئے قربانیاں کرتے تھے۔ کعبہ کی طرح اس کی طرف بھی قربانی کے جانور لے جائے جاتے اور تمام بتوں سے بڑھ کر اس کی عزت کی جاتی تھی۔ ’منات‘ کا استھان مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے ’قدید‘ کے مقام پر واقع تھا۔ بنو خزاعہ اور اوس وخزرج کے لوگ اس کے بہت معتقد تھے۔اس کا حج اور طواف کیا جاتا اور قربانیاں چڑھائی جاتیں ۔ بیت اللہ کا حج کرنے والے جب طواف بیت اللہ اور عرفات اور منیٰ سے فارغ ہوجاتے تو وہیں سے ’منات‘ کی زیارت کے لئے لبیک پکارنا شروع کردیتے۔ اس طرح اس ’دوسرے حج‘ کرنے والوں کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے انہیں شرکیہ عقائد و افعال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَفَرَأيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الأخْرٰی ألَکُمُ الذَّکَرُ وَلَهُ الأنْثٰی تِلْکَ إذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰی﴾ (النجم:۱۹تا۲۲) ”بھلا تم نے اس لات اور عزیٰ اور تیسری منات دیوی پربھی کچھ غور کیا۔ کیا بیٹے تمہارے لئے ہیں اور بیٹیاں اللہ کے لئے ؟ یہ تو سخت ناانصافی کی بات ہوئی!“ ان آیات کی رو سے مشرکین عرب تین کبیرہ گناہوں کے مرتکب تھے: (۱) غیر اللہ کی پرستش جو کہ قطعاًناقابل معافی گناہ ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ٹھہرانا، جو شرک کی سب سے بڑی قسم ہے۔ (۳) اور اولاد بھی وہ جسے وہ اپنے لئے قطعاً پسند نہیں کرتے۔