کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 37
دیتے ہیں ؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ، نہ ہم یہ جاننے کے مکلف ہیں ۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ہندی، مصری اور یونانی تہذیب میں دیوتاؤں اور دیویوں کا عقیدہ اسی عقیدۂ ملائکہ سے ماخوذ ہے جو کئی لحاظ سے غلط ہے، مثلاً: (۱) دیوی دیوتاؤں میں نرو مادہ کا سلسلہ موجود ہے، لیکن فرشتوں میں نرومادہ کی سرے سے کوئی تمیز ہی نہیں ․ (۲) دیوی دیوتاؤں میں توالد و تناسل کا سلسلہ بھی موجود ہے جیسا کہ ویدن (Weden) کی ایک بیوی تسلیم کی جاتی ہے جس کا نام فرگ (Frigg) یا فرگا (Frigga) ہے۔ اور ان کے بیٹے کا نام تھار (Thor) لیکن فرشتوں میں توالد و تناسل کا کوئی سلسلہ نہیں ۔ (۳) دیوی دیوتاؤں کو صاحب ِاختیار و ارادہ مخلوق تسلیم کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے الجھتے، لڑپڑتے ایک دوسرے پر غالب ہوتے ہیں لیکن فرشتے ان باتوں سے پاک ہیں ۔ (۴) دیوی دیوتا اپنے پجاریوں کی عبادت سے خوش ہوتے اور ان کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ صاحب ِاختیار و ارادہ ہیں ۔ لیکن فرشتے تو صاحب ِاختیار و اِرادہ ہیں ہی نہیں ، لہٰذا اُن سے ایسی توقعات عبث ہیں ۔ غالباً انہی وجوہ کی بنا پر مسلمانوں کے ایک عقل پرست فرقہ نے ملائکہ سے کائنات کی تسخیری قوتیں مراد لی ہیں لیکن یہ تعبیر بھی غلط ہے کیونکہ صریح نصوص کے خلاف ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ایسی مقتدرِ اعلیٰ ہستی ہے جیسا کہ اس کی صفات بیان کی جاتی ہیں تو اسے تدبیر اُمور کائنات میں فرشتوں سے بھی مدد لینے کی کیا ضرورت تھی؟ نیز یہ کہ اگر نظامِ کائنات ایسے ہی چل رہا ہے تو پھر ملائکہ کے بجائے دیوتاؤں کا نام لے لینے سے کیا فرق پڑ جاتاہے؟ تو ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’شریک‘ کا اطلاق صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ’ مشرک‘ صاحب ِارادہ بھی ہو۔ میں اگر قلم اور دوات سے کچھ لکھتا ہوں تو یہ قلم اور دوات میرے شریک نہیں بلکہ آلہ کار ہیں ۔ اسی طرح ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کے آلہ کار کی حیثیت تو دی جاسکتی ہے، شریک کی نہیں ۔ اس کے برعکس دیوی دیوتا چونکہ صاحب ِاختیار و ارادہ تسلیم کئے گئے ہیں ، اس لئے ان کی حیثیت شریک ِکار کی ہے نہ کہ آلہ کار کی۔ اِس صریح فرق کے باوجود انبیاے سابقہ کی اُمتوں پر اسی یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں کا اتنااثر پڑا کہ وہ ملائکہ کو بھی وہی کچھ کہنے لگے جو دیوی دیوتاؤں سے سمجھا جاتا تھا۔ ان فرشتوں میں نسلی امتیاز بھی قائم کیا گیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی اولاد سمجھا جانے لگا۔ مزید ستم یہ کہ وہ ان فرشتوں کو زیادہ بیٹیاں یا بیویاں ہی قرار دیتے تھے۔ اور یہی’فرشتیاں ‘ ان کے معبود تھے۔ قرآنِ کریم نے ان مشرکین عرب کے اس عقیدہ