کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 35
اللّٰهِ، قُلْ أتُنَبِّئنَّهُمْ بِمَا لاَ يَعْلَمُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِیْ الارْضِ﴾(یونس:۱۸)
” اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں ، جو نہ تو ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ سنوار سکتی ہیں ۔ پھر کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہکے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ ان سے کہہ دو: کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبردیتے ہو،اس کے علم میں آسمانوں اور زمین میں جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔“
آیت ِبالا سے معلوم ہوا کہ مشرکین کا یہ عقیدۂ شفاعت سرتاپا باطل ہی باطل ہے جس میں ذرّہ بھر بھی حقیقت نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ دوسرے مقام پر فرماتا ہے :
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ يَشْفَعُ عِنْدَہ إلاَّ بِإذْنِه﴾ (البقرة:۲۵۵)
”کسی کی مجال ہے کہ وہ اللہ کے ہاں کسی کی سفارش کرسکے، اِلا یہ کہ اللہ کو خود منظور ہو۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایسے عقیدۂ شفاعت پر تکیہ کرنا باطل اور عبث ہے۔ کیونکہ جس ’بزرگ‘ سے ایسی توقع وابستہ کی جارہی ہے، اسے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اپنا انجام کیا ہوگا؟پھر وہ دوسروں کو کیا ضمانت دے سکتا ہے یا دوسرے اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں ؟ البتہ اس آیت میں إلا بإذنہ کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ’ کلیةً‘ میں کچھ گنجائش موجود ہے۔ یعنی کسی خاص بزرگ کی کسی خاص گنہگار کے حق میں سفارش قبول بھی ہوسکتی ہے اور اس کی شرائط درج ذیل ہیں :
(۱) سفارش کنندہ کو روزِقیامت اپنی نجات اور خدا کی خوشنودی کا یقین ہوچکا ہو۔
(۲) جس کی سفارش کی جارہی ہے، وہ نہ تو مشرک ہو اور نہ ہی عادی مجرم۔
(۳) ایسی سفارش بھی کسی زور یا دباؤ کے تحت قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا زور نہیں ۔ وہ سب سے زیادہ زورآور اور غالب ہے۔ یہ سفارش بھی سفارش کی التجا اور اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کے نتیجہ کے طور پر مقبول ہوسکتی ہے اور یہی إلا باذنہ کا مطلب ہے۔ اور اسی طرح کی سفارش انبیاء اور صالحین کریں گے جو مقبول ہوگی۔
دورِ نبوی کا ایک واقعہ ہے ، قحط سالی کا دور تھا۔ ایک گنوار رسول اللہ کی خدمت میں آیا اور بارش کے لئے دعا کرنے کی التجا کی اور کہا کہ إنا نستشفع بک علی اللّٰه ونستشفع باللّٰه عليک
یعنی ”ہم آپ کی اللہ کے ہاں سفارش چاہتے ہیں اور اللہ کی سفارش آپ کے ہاں “۔
گنوار کی اس بات پر آپ لرزہ براندام ہوگئے اور سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنے لگے۔ مشیت ِالٰہی کے آثار آپ کے چہرہ سے واضح طور معلوم ہونے لگے۔ پھر آپ نے اس گنوار کو کہا کہ تم کیسے بیوقوف ہو اور اللہ کو کسی کے ہاں سفارشی نہیں بناتے، تم اس کی عظمت کو کیا جانو۔ اس کی شان بہت بڑی ہے۔ اس کا عرش اس کے آسمانوں پر ہے۔ اور اپنے ہاتھ کوقبے کی شکل بناکر سمجھایا اور کہا کہ اس کا عرش اللہ کی عظمت کی وجہ