کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 34
سے نزدیک تر ہوں ۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَإذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌُ، أجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِِ﴾(البقرة: ۱۸۶) ”اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو ان سے کہہ دو کہ میں قریب ہی ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ۔“ اللہ تعالیٰ سے کی ہوئی دعا بعض دفعہ قبول ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی ہوتی۔ دعا کے قبول نہ ہونے کے بھی کئی اسباب ہیں ، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ دعا قبول ہو یا نہ ہو، ہمیں یہ حکم دیا گیاہے کہ اگر ایک جوتی کا تسمہ بھی مانگیں تو اسی اللہ سے مانگیں ۔ اس قسم کا توسل بہرحال اللہ تعالیٰ کو سخت ناگوار ہے۔ اور وسیلہ کی جائز اور صحیح تر صورت یہ ہے کہ اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنایا جائے۔( یعنی اگر ہم نیک عمل کریں گے تو خود بخود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا جائے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَابْتَغُوْا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِیْ سَبِيْلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (المائدة:۳۵) ”اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ نجات پاؤ۔“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جوں جوں انسان تقویٰ اختیار کرتا جاتا ہے، اللہ کا قرب حاصل کرتا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور نجات پانے کا بہترین ذریعہ تو ’جہاد‘ ( دین کو غالب کرنے کی محنت) ہے۔ ۴۔ سفارش تمام مشرکین میں چوتھی قدرِ مشترک سفارش یا شفاعت ہے جو ان کے نظامِ کائنات والے مزعومہ عقیدہ کی ایک کڑی ہے۔ شفاعت کا اطلاق عام طور پر دفع مضرت کے لئے درمیانی رابطہ تلاش کرنے پر ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جس طرح ایک مجرم انسان کو تھانے یا عدالت میں پیش ہونے سے پہلے اپنے بچاؤ کے لئے کسی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے،اسی طرح ہم جیسے گنہگاروں کو اس حقیقی معبود کی عدالت میں حاضر ہونے سے پیشتر ان چھوٹے خداؤں (یعنی دیوتاؤں یا اولیاؤں ) کی سفارش بھی ضروری ہے۔ اسی ضرورت کے تحت ان معبودوں کے آگے سرعجز ونیاز خم کرتے ہیں ، چڑھاوے چڑھاتے اور قربانیاں پیش کرتے ہیں ۔ اور ہروہ کام کرتے ہیں جو معبودِ حقیقی کے لئے سزاوار ہیں تاکہ یہ معبود ہم سے خوش رہیں اور ہماری سفارش کردیں ۔مشرکین کے اس عقیدہ کو اللہ نے ان الفاظ میں ادا فرمایا ہے ﴿وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لاَ يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنْفَعُهُمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰوٴلاَءِ شُفَعٰوٴنَا عِنْدَ
[1] تفصیل کے لئے دیکھیں ’’وسیلہ کی شرعی حیثیت‘‘ ازمولانا عبد الجبار سلفی … ماہنامہ ’محدث‘: مئی ۲۰۰۰ء ، ص ۲۰ تا ۲۹