کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 33
نقائص سے پاک ہے۔ وہ خالق ہے مخلوق نہیں ۔ وہ مقتدرِ اعلیٰ ہے کمزور نہیں ۔ لہٰذا اس نظامِ مملکت کے چلانے کے لئے کسی مددگار کی بھی ضرورت نہیں ، وہ ہر جگہ حاضر بھی ہے اور ناظر بھی ۔ ہر ایک کی ہر جگہ سے پکار سن بھی سکتا ہے اور ا س کا مداوا کرنے کا بھی اسے مکمل اختیار ہے۔لہٰذا اسے ماتحت افسران کی کوئی ضرورت نہیں ۔ارشادِ باری ہے:
﴿وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَکُنْ لَهُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْهُ تَکْبِيْرًا﴾
”اور کہو کہ سب تعریف اللہ ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹابنایا ہے، نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے، اور نہ ہی وہ عاجز و ناتواں ہے کہ اس کا کوئی مددگار ہے، اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو۔“ (الاسراء:۱۱۱)
۳۔ توسل
نظامِ کائنات سے متعلق یہ تصور قائم کرنے کے بعد شیطان نے ان مشرکوں کو یہ راہ سجھائی کہ جس طرح ایک بادشاہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اپنے قریبی افسروں سے تعلق پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان چھوٹے خداؤں (نبیوں یا اولیاؤں سے رابطہ قائم رکھناضروری ہے تاکہ ہماری ضروریات باضابطہ طور پر (Through Proper Channel) شرفِ پذیرائی حاصل کرسکیں اور ہم اللہ کے قریب ہوسکیں ۔مشرکین کے اس عقیدہ کواللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِه اَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إلاَّ لِيُقَرِّبُوْنَا إلَی اللّٰهِ زُلْفیٰ﴾
” اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوست بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں )، ہم تو ان کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قریب کردیں ۔“ (الزمر:۳)
ایسے ہی درمیانی رابطہ کو جو کسی کے لئے ذریعہ قرب بن سکے، عربی زبان میں ’وسیلہ‘ کہتے ہیں ۔ اور توسل بھی قرب کا ذریعہ تلاش کرنا ہے۔ مشرکین مکہ بھی وسیلہ سے یہی چھوٹے خداؤں کا درمیانی رابطہ مراد لیتے تھے ۔ دورانِ حج وہ تلبیہ اس طرح پڑھا کرتے تھے :
لَبَّيْکَ، اَللّٰهُمَّ لَبَّيْکَ، لَبَّيْکَ لاَشَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ۔ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِيْکَ لَکَ (بخاری: ۱۵۴۹)
یعنی وہ حقیقی معبود اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے تھے۔ صرف اس قسم کے ’توسل‘ کی بنا پر انہیں مشرک قرار دیا گیا۔مشرکین کی اس دلیل کا ردّ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کا مثبت جواب یہ دیا کہ تمہاری دعا و فریاد سننے کے لئے بھی کسی درمیانی واسطہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں تو تمہاری رگ ِجان سے بھی تم