کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 31
(۱) یہ ’اولیاء اللہ‘ نوح علیہ السلام کی بعثت سے صدیوں پہلے فوت ہوچکے تھے اور جب نوح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو اس وقت یہ قوم ان کے بتوں کی عبادت کرتی اور اپنے ان معتقدات پر راسخ ہوچکی تھی۔ (۲) شیطان نے جب کبھی شرک یا کسی دوسری برائی کی راہ انسان کو سجھائی ہے تو اس کا کوئی پہلو خوبصورت بناکر اسے اپنے دامِ تزویر میں پھنسایا ہے۔ (۳) مظاہر پرستی کی دو شکلیں ہیں : ایک، براہِ راست اس چیز کے سامنے سرعجزونیاز خم کیا جائے جیسے سورج، آگ، کسی خاص درخت یاحیوان (مثلاً گائے) کے سامنے، دوسرے، اس کا بت بنا کر اس کے سامنے تعظیم و آداب بجا لائے جائیں جیسے سورج دیوتا، لکشمی دیوی وغیرہ۔ اسی طرح اولیا پرستی کی دو قسمیں ہیں : ایک قبر پرستی ، دوسرے بت پرستی۔ گویا بت پرستی ان دونوں میں قدرِ مشترک ہے مظاہر (کواکب) پرستی اور اولیا پرستی میں مشترک اقدار غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی ان مختلف اقسام میں چندباتیں ایسی ہیں جو ہر قسم کے مشرکوں کے عقائد میں داخل ہیں اور وہ یہ ہیں : ۱۔ روح کا تعلق ایک مظاہر پرست جب کسی بت کی پوجا کرتا ہے تو اس اعتقاد کے ساتھ کرتا ہے کہ یہ بت تو صرف پتھر یا دھات کا بت ہے۔ اس کی بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں ۔ البتہ جس چیز یا دیوتا کا یہ بت ہے، اس کی روح کا تعلق اس بت سے بدستور قائم ہوتا ہے۔ اور جب بھی کوئی نیا بت اس دیوتا کی مخصوص شکل کے مطابق بنایا جاتا ہے تو اس نئے بت سے بھی اس دیوتا کی روح کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جب ہم اس بت کوپکارتے ہیں تو اس دیوتا کی روح قریب سے ہماری آواز سنتی ہے، پھر اس کا مداوا کرتی ہے۔ بعینہ اس طرح کا عقیدہ ایک قبر پرست کا ہوتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ فوت شدہ بزرگ کی روح کا تعلق اس کی قبر سے بدستور قائم رہتا ہے۔ اور جب ہم ان کی قبر پر حاضری دیتے ہیں تو ان کی روح ہم سے خوش ہوتی ہے اور جب انہیں پکارتے ہیں تو وہ اس کا مداوا کرتے ہیں ۔ قرآن ان دونوں قسم کے نظریات کو باطل قرا ردیتا ہے۔ مظاہر کا اس لئے کہ وہ بے جان اور انسان کے خادم ہیں ۔ ان میں زندگی یا روح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سورج اگر ہمیں حرارت بخشتا ہے اور اس سے فصل پکتے یا بعض دوسرے فوائد حاصل ہوتے ہیں تو اس میں اس کا اپنا کچھ کمال نہیں کیونکہ یہ تاثیریں اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہیں ۔ جیسے زہر انسان کو ہلاک کرتا ہے یا شہد شفا بخشتا ہے تو اس میں زہر یاشہد کا