کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 29
سوچ لیتا ہے۔ گویا قرآن نے غیب دانی کے لئے ایک معیار بتلادیا ہے۔
کہانت، رمل، جفر اورغیب دانی کے مدعی دوسرے علوم : اسی معیار کے لحاظ سے غیب دانی کا دعویٰ کرنے والے دوسرے علوم مثلاً جفر، رمل، کہانت اور فال گیری وغیرہ سب باطل ٹھہرتے ہیں کیونکہ یہ علوم جاننے والے عموماً فٹ پاتھ پر بیٹھ کر زائچے بناکر پیسے کماتے،انگوٹھیاں اور تعویذ بیچتے ہی نظر آتے ہیں ۔ اگر ان علوم میں کچھ صداقت ہوتی تو یہ لوگ ایسے مفلوک الحال نظر نہ آتے۔
اور شرعی لحاظ سے یہ علوم اس لئے باطل ہیں کہ ان کا تعلق یا غیب دانی سے ہوتا ہے یا بعض اشیا کی تاثیرات سے اور یہ دونوں باتیں شرعی نقطہ نظر سے غلط ہیں ۔ قرآن ایسے ہی علوم کو جِبت سے تعبیر کرتا اور ان پریقین رکھنے کو کفر و شرک بتلاتا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ ان علوم کے اثرات بعض دفعہ واضح طور پر ظہور پذیر ہوجاتے ہیں جیسے کاہن کی خبریں کبھی سچی بھی نکل آتی ہیں ورنہ یہ پیشے دنیا سے معدوم ہوجاتے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ سچی ہوتیں ہیں توبسا اوقات غلط بھی ثابت ہوجاتی ہیں ۔ لہٰذا ان علوم کا اعتبار کیا رہا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ کسی چیزکا ثابت ہونا اور چیز ہے اور اس کا شرعی نقطہ نظر سے جائز ہونا اور چیز۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جادو یا دیگر شیطانی تصرفات سے کسی کو بھی انکار نہیں ، لیکن ان کے جواز کا کوئی بھی قائل نہیں ۔
(۴) ہفتہ کے دنوں کے نام
ہندی یا بکرمی تقویم اور یورپی یا عیسوی تقویم دونوں میں ہفتہ کے دنوں کے نام دیوتاؤں اور سیاروں کی فرمانروائی کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں جبکہ اسلامی یاہجری تقویم میں ہفتہ کے ناموں میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ نہیں پایا جاتا۔ اس تقویم میں ہفتہ کے دنوں کے نام یہ ہیں :
يوم الجمعة يوم السّبت يوم الٴاحد يوم الاثنين يوم الثّلثاء يوم الاربعاء يوم الخميس
جمعہ ہفتہ پہلا دن دوسرا دن تیسرا دن چوتھا دن پانچواں دن
اگرچہ موجودہ سائنسی دورنے بھی ستاروں کی تاثیرات اور اس جیسے دوسرے توہمات کو باطل قرار دیا ہے، تاہم ابھی تک ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے مضامین سے پر جنتریاں ابھی تک چھپتی ہیں اور جوتشی، نجومی وغیرہ بھی اپنی دکانیں سجائے اکثرنظر آجاتے ہیں ۔
(۲) اولیا پرستی اور قبر پرستی
اِن تاریخی ذرائع سے جو انسان کے علم میں آئے ہیں ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام