کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 28
متصور ہوتی تو صبح آپ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (حدیث ِقدسی):
”وأصبح من عبادی موٴمن بی وکافر بالکواکب، فأما من قال: مُطِرنا بفضل اللّٰه ورحمته فذلک موٴمن بی وکافر بالکواکب وأما من قال مُطِرْنا بنوء کذا وکذا فذلک کافر بی وموٴمن بالکواکب“ ( متفق علیہ)
”میرے بندوں میں کچھ لوگ مجھ پر ایمان لائے اور سیاروں (کی تاثیرات ) سے منکر یا کافر ہوئے یعنی جس شخص نے یہ کہا کہ ہم پر یہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور سیاروں کا منکر ہوا اور جس نے یہ کہا کہ ہم پریہ بارش فلاں سیارے کے فلاں برج میں داخل ہونے سے ہوئی تو وہ میرا منکر ہوا اور سیاروں پر ایمان لایا۔“(بخاری و مسلم)
گویا سیاروں کے اثرات کو تسلیم کرنا اور خدا پر ایمان لانا دو مخالف اور متضاد چیزیں ہیں جن میں سے صرف ایک ہی چیز قبول کی جاسکتی ہے۔ جو مسلمان ہے وہ سیاروں کے اثرات کو تسلیم نہیں کرسکتا اور جو سیاروں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ آج ہمارے اسلامی معاشر ہ میں یہ مشرکانہ رسم عام ہوچکی ہے اور اب تو اچھے خاصے دین دار افراد بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ
”میرا سٹار چونکہ فلاں ہے ، اس لئے مجھ میں فلاں خاصیت پائی جاتی ہے۔“
یہ بھی انسانی زندگی میں ستاروں کے اثرات تسلیم کرنے کا واضح مظہر ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ۔
(۳) علم نجوم اور علم غیب
علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے، اللہ کے سوا دوسروں کے لئے علم غیب کی تردید قرآن کریم میں بہت سی آیات سے ثابت ہے وہ ﴿لاَ يَعْلَمُ الْغَيْبَ إلاَّ هُوَ﴾کہہ کر غیب کی خبریں بتلانے والے سب علوم (جیسے رَمل ، جفر، جوتش، کہانت) کو وہمی اور باطل قرار دیتاہے اور قرآن نے عقلی دلیل یہ پیشکی ہے کہ جو شخص غیب جانتا ہو، اسے تلاشِ معاش کے لئے دَر دَر کی ٹھوکریں کھانے کی اور محنت ومشقت کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اعلان کردیجئے
﴿وَلَوْ کُنْتُ أعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْءُ﴾ (الاعراف:۱۸۸)
”(اے پیغمبر!) آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت سا مال و دولت اکٹھا کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی گزند نہ پہنچتا۔“
اس آیت میں علم غیب کے دو فائدے بتلائے گئے ہیں : (۱) حصولِ رزق کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت نہیں رہتی اور (۲) یہ کہ ایسے شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ وہ اس کا تدارک پہلے ہی