کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 27
لوگوں کی دلچسپی بڑھتی گئی تو اس کے نتیجہ میں پیشہ ور نجومیوں کی ایک فوج ظفر موج معرضِ وجود میں آگئی جو لوگوں کے زائچے تیار کرکے انہیں غیب کی خبریں مہیا کرنے لگی۔ آج کل بھی ہماری اردو زبان میں ایسے بے شمار محاورات زبان زد ہیں جو ان معتقدات کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں ۔مثلاً ”ستارۂ قسمت کا گردش میں ہونا“ یا ’فلک کے رفتار کی چیرہ دستی‘ وغیرہ۔ حتیٰ کہ ہمارے شعر و ادب میں بھی یہ تصورات نفوذ کرگئے۔ بقولِ غالب رات دن گردش میں ہیں سات آسمان ہو کر رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا اسلام اور کواکب پرستی جب اسلام آیا تو اہل عرب دوسرے دیوتاؤں اور دیویوں کے علاوہ سیاروں سے منسوب دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش بھی کرتے تھے۔ سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں اور یہ لفظ بطورِ موٴنث استعمال ہوتا ہے چنانچہ اہل عرب سورج کے دیوتا کو دیوی ’الاہہ‘ (جوکہ الٰہ کی موٴنث ہے)کہتے تھے۔ اسی طرح ستارہ ’شعریٰ‘ کا ذکر بھی قرآنِ کریم میں موجود ہے جس کی پرستش کی جاتی تھی۔ اسلام نے سیاروں سے منسوب جملہ معتقدات پرکاری ضرب لگائی۔ چند معروف پہلو درج ذیل ہیں : (ا) سیاروں کی خدائی اسلام نے انسان کو تمام کائنات سے اشرف تسلیم کرتے ہوئے بلند ترین مقام بخشا ہے۔ ان سیاروں کی خدائی یا دیوتائی تو درکنار وہ تو ان اجرامِ فلکی کو انسان کا خادم قرار دیتا ہے۔ ارشادِ باری ہے : ﴿وَسَخَّرَلَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ﴾ (ابراہیم:۳۳) ” اور اللہ تعالیٰ نے چاند اور سورج کو تمہاری خدمت پر مامور کردیا ہے جو ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ اسی طرح دن اور رات کو تمہاری خدمت کے لئے لگا دیا گیا ہے۔“ ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ صرف ان اجرامِ فلکی ہی کی کیا بات ہے ، ہم نے تو آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، تمہاری ہی خدمت پر مامور کیا ہے: ﴿ألَمْ تَرَوْا أنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِیْ السَّمٰواتِ وَمَا فِیْ الأرْضِ﴾ (لقمان:۲۰) ”کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اللہ نے تمہارے کام میں لگا دیا ہے۔“ (۲) سیاروں کی تاثیر تسلیم کرنا واضح شرک ہے دورِ نبوی کا واقعہ ہے کہ ایک رات بارش ہوئی جو عرب جیسے بے آب و گیاہ ملک میں ایک عظیم نعمت