کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 25
تیسرے پر زہرہ، چوتھے پر سورج، پانچویں پر مریخ، چھٹے پر مشتری اور ساتویں پر زحل ہے۔ آٹھویں فلک کو فلک ِثوابت اور فلک البروج بھی کہتے ہیں ۔اسی فلک کو ۱۲ حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصہ کو ایک برج قرار دیا گیا ہے اور فلک نہم کو فلک ِاطلس کہتے ہیں ۔ اس نظام کی رو سے آٹھوں افلاک اور ساتوں سیارے، اگرچہ اپنی الگ الگ حرکت بھی رکھتے ہیں تاہم فلک ِنہم کی حرکت ِوضعی سے وابستہ ہیں اور ساتوں سیاروں کی حرکت سالانہ ہر ایک فلک ِخاص کی حرکت سے تعلق رکھتی ہے۔ بطلیموس کا یہ نظریہ جو اس نے اپنے استادوں اور پیشرؤوں ارسطو اور برخس کی مدد سے مرتب کیا تھا، چار دانگ عالم میں بہت مقبول ہوا۔ مصر، یونان، ہند وغیرہ سب ممالک میں اس نظریہ کو قبولِ عام حاصل ہوا۔ یورپ میں ۱۵۰۰ء تک اسی نظریہ کی تعلیم دی جاتی رہی ہے اور ہندوستان میں آج تک جنتریاں وغیرہ اس نظام کے مطابق مرتب ہوتی ہیں ۔ سیارے اور ہفتہ کے دن: یہ نظریہ پہلے سے بھی بڑھ کر مشرکانہ عقائد اپنے ساتھ لایا۔ افلاک اور سیاروں کے ایسے مخصوص اثرات تسلیم کرلئے گئے جو انسانی زندگی پر ہر وقت پڑتے ہیں ۔ ہفتہ کے سات دنوں کے نام اظہارِ عقیدت کے طور پر انہیں سات سیاروں یا ان کے دیوتاؤں کے نام پر رکھے گئے۔ اہل یونان و روم ان معتقدات میں پیش پیش تھے۔ان کے ہاں دنوں کے ناموں کی سیاروں سے مناسبتکچھ اس طرح ہے۔ انگریزی زبان میں : (۱) سورج کو اور اسی طرح اس کے دیوتا کو’ سن‘ (Sun) اور اتوار کو (Sunday) کہا جاتاہے۔ یعنی سورج دیوتا کا دن۔ (۲) چاند کو اوراسی طرح اس کے دیوتا کو ’مون‘ (Moon) اور سوموار کو (Monday) کہاجاتا ہے یعنی چاند دیوتا کا دن۔ (۳) مریخ کو (Mars)لیکن اس کے دیوتا کو ’ٹو‘ (Tiw) لہٰذا منگل کو (Tuesday) کہا جاتا ہے یعنی مریخ دیوتا کا دن۔ (۴) عطارد کو اور اس کے دیوتا کو بھی ’ویڈن‘ (Weden) اور بدھ کو (Wednesday) کہا جاتا ہے یعنی عطارد دیوتا کا دن۔ (۵) اسی Weden دیوتا کا ایک بیٹا تھار(Thor) تسلیم کیا گیا جو گرج یا رعد کا دیوتا بنا۔ اسے مشتری کا دیوتا بھی قرار دیا گیا۔ اسی نسبت سے جمعرات کو (Thursday) کہتے ہیں ۔ (۶) اور اسی Weden دیوتا کی بیوی کا نام فرگ (Frigg)یا فرگا (Frigga) تجویز ہوا، اسے جونو