کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 24
منقاد(فرمانبردار) ہوکر سلیمان علیہ السلام کے پاس حاضر ہوگئی ۔اس کے بعدوہ خود اور اس کی قوم سب اس مشرکانہ فعل سے تائب ہوکر اسلام میں داخل ہوگئے۔ مجوس: دورِ نبوی میں بھی ایک اور مستقل فرقہ یا مذہب کا وجود بھی ملتا ہے جو خود تو اپنے آپ کو ’زرتشت‘ کہتے ہیں ، لیکن قرآن نے انہیں ’مجوس‘ کے لفظ سے پکارا ہے۔یہ فرقہ ایران و عراق کے علاقہ سے تعلق رکھتا تھا اوریہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح علیہ السلام کا مرید بتلاتے ہیں اور نوح کے علاوہ دیگر انبیا کے دشمن ہیں ۔ اس فرقہ کے رہنما مانی اور متروک تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا ایک نہیں بلکہ دو ہیں ۔ ایک نور یا روشنی کا خدا جسے وہ ’یزدان‘ کہتے تھے اور نیکی اور بھلائی کے تمام امور و افعال اس کی طرف منسوب کرتے تھے۔ دوسرا تاریکی یا ظلمت کا خدا جسے وہ ’اہرمن‘ کہتے تھے، اور برائی کے تمام امور و افعال اس کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ان کی الہامی کتابوں کا نام ’زند‘اور ’اوستا‘ ہے۔ یہ لوگ سورج اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔ آگ کے بڑے بڑے الاؤ تیار کرتے اور اسے بجھنے نہیں دیتے تھے۔ ان زرتشتیوں کے ایک ضمنی فرقے کا عقیدہ یہ تھا کہ یزدان اور اہرمن دونوں خدا ہم مرتبہ ہیں لیکن یہ دونوں ایک الٰہ اعلیٰ کے ماتحت ہیں جس نے سب سے پہلے انہیں پیدا کیا۔ دورِ فاروقی میں جب یہ علاقہ اسلام کے زیر نگین آگیا تو اس مذہب کا زور ختم ہوگیا لیکن کچھ نہ کچھ اثرات باقی چھوڑ گیا۔ خلیفہ مامون الرشید عباسی کے دور میں شیعہ مذہب کے چند غالی فرقے ایسے عقائد کا شکار ہوگئے تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں مغل بادشاہ’ اکبر‘ جس نے دین الٰہی رائج کیا،پکا سورج پرست تھا جو دن میں چار دفعہ سورج کی پرستش کرتا تھا۔ اکبر ہندو عقائد کواکب پرستی سے سخت متاثر تھا، کیونکہ اس نے کئی ہندو عورتوں سے شادی کی تھی۔ نجوم پرستی کا نیا دور : لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ایسے عقائد نے پھر سے راہ پائی بلکہ شیطان نے اس مشرکانہ نظام کومنظم کرنے کے نئے گوشے بھی تلاش کر لئے۔ نجوم پرستی یا علم جوتش کا علم نجوم، علم ہیئت سے گہرا تعلق ہے۔ ۵۹۰ ق م میں یونان کے ایک حکیم فیثا غورث نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے۔ اور زمین ساکن نہیں بلکہ کئی سیاروں سمیت سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ لیکن اس کے دو صدی بعدیعنی چوتھی صدی ق م میں بطلیموس فلاسفر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین ساکن اور سورج متحرک ہے۔ اس نظام میں زمین کو صرف ساکن ہی نہیں بلکہ جملہ سیارگان کا مرکز ِعام قرار دیا گیا ہے۔ اس نظام میں ۱۳ کرے مقرر کئے گئے ہیں ۔ پہلا کرہ آب جو زمین کے ۴/۳ حصہ کو محیط ہے۔ دوسرا کرۂ ہوا ، تیسرا فضا کا اور چوتھا حرارت کا کرہ ہے۔ ا س کے بعد ۹ فلک آتے ہیں ۔ پہلے فلک پرچاند، دوسرے پر عطارد،