کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 23
بنایا۔یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیچھے نہ چھوڑنا چاہتے تھے،کیونکہ ان کی طرف سے انہیں کچھ ’خطرہ‘ بھی تھا۔ جب ان لوگوں نے آپ کو ساتھ چلنے پر مجبور کیا تو آپ کو ایک عجیب ترکیب سوجھ گئی جو ان لوگوں کے عقیدے کے عین مطابق تھی۔ آپ نے فوراً سیاروں کی توجہ کی اور کہا کہ ”میں تو عنقریب بیمار ہونے والا ہوں “ تمہارے رنگ میں بھنگ پڑ جائے گا، لہٰذا مجھے جانے پر مجبور نہ کرو۔ آپ کی یہ ترکیب کا رگر ثابت ہوئی اور وہ لوگ آپ کو پیچھے چھوڑ کر میلہ پر چلے گئے۔
بعد میں وہی ہوا جس کا انہیں خطرہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تبر(کلہاڑا) لے کر ان کے سب دیوتاؤں کو پاش پاش کردیا۔ البتہ سب سے بڑے ’خدا‘ کو چھوڑ دیا اور تبر اس کے کندھے پر رکھ کر چلے گئے۔ تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ گویا اس بڑے خدا نے دوسرے سب چھوٹے خداؤں کا کام تمام کیا ہے۔ اور یہ تمام خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کارنامہ پوری قوم اور ان سب خداؤں کے لئے کھلا ہوا چیلنج تھا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ کارنامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کا ہوسکتا ہے۔ انہیں برسرعام بلوایا گیا تو آپ نے برملاکہہ دیا کہ یہ سب ماجرا اس بڑے خدا سے پوچھ لو۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ اب کیا کہیں ؟ آخر بولے: ”ابراہیم علیہ السلام یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ یہ خدا بولتے نہیں ۔“ یہ جواب گویا قوم کی ذہنی شکست تھی۔ تاہم انہوں نے اپنے دیوتاؤں کی وکالت کی خاطر ابراہیم علیہ السلام کو اس جرم کی پاداش میں آگ میں زندہ جلا دینے کا فیصلہ کیا۔ اور ایک بڑا الاؤ تیار کرکے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کوپھینک دیا گیا۔ لیکن اس اللہ نے، جس پر آپ ایمان رکھتے تھے ، آپ کو زندہ و سلامت آگ سے نکال لیا۔ آپ کے آگ سے زندہ سلامت بچ نکلنے کا واقعہ قوم کے لئے دوسرا بڑا چیلنج تھا۔ لیکن ان کی بے بسی نے ان کو دوبارہ نگونسار کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قول و عمل سے بت پرستی اور نجوم پرستی کے خلاف جو تحریک چلا ئی تھی، وہ کامیاب رہی۔ بہت سے لوگ حقیقت کو پاگئے اور ایسے عقائد ایک طویل مدت کے لئے سرد پڑگئے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام : (۹۵۰ق م) آپ فلسطین وشام کے فرمانروا بھی تھے اور نبی بھی۔ آپ کی حکومت عقبہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ ان ایام میں یمن کے علاقہ سبا میں ایک عورت (جس کا نام بلقیس بیان کیاجاتا ہے) حکمرانی کرتی تھی۔ یہ ملکہ اور اس کی رعایا تمام کے تمام سورج پرست تھے۔ اس قوم کے مورِثِ اعلیٰ کا نام عبد ِشمس (بندۂ آفتاب یا سورج کا پرستار) تھا اور لقب سبا تھا۔ بنی اسرائیل کی روایات میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ جب ہدہد سلیمان علیہ السلام کا خط لے کر پہنچا توملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لئے جارہی تھی۔ سلیمان علیہ السلام نے اس مشرک قوم کے خلاف جہاد کا ارادہ کیا، لیکن یہ ملکہ کی دانشمندی تھی کہ وہ خود ہی مطیع و