کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 22
حکمران تھا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سلطنت کے سب سے بڑے شاہی پروہت، نجوم پرست اور بت تراش ’آزر‘ کے ہاں پیدا ہوئے۔ آزر کا اصلی نام تارخ تھا لیکن بت گری اور بت فروشی کی وجہ سے آزر مشہور ہوگیا تھا۔ ( ا ن دنوں مندوروں میں سیاروں کے دیوتاؤں کے موہوم شکلوں کے مجسّمے رکھے جاتے۔نیز ان کے علاوہ دیگر مظاہر قدرت مثلا آگ، پانی، بادل وغیرہ کے دیوتاؤں کے مجسّمے بھی موجود تھے۔ اور ان کے لئے ایسی تمام رسوم بجا لائی جاتی تھیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سزاوار ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بچپن ہی سے قوم کی اس نجوم پرستی اوربت پرستی سے بیزار تھے۔ سیاروں کے ایسے اثرات تسلیم کرنے کے لئے آپ کی طبیعت قطعاً آمادہ نہ ہوتی تھی۔ آپ علیہ السلام نے پہلے کسی ایک سیارے کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا۔پھر چاند اور اس کے بعد سورج کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس مطالعہ نے آپ کو سیاروں کے اثرات سے بغاوت پر آمادہ کردیا۔ آپ نے دیکھا کہ یہ اجرام خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، اپنے فرض کی ادائیگی میں مجبورو بے بس ہیں ۔ ان کا اپنا ذرّہ بھر بھی اختیار نہیں ہے۔ آپ سوچتے تھے کہ بھلا ایسی مجبور و بے بس اشیا خدائی اختیارات کی حامل کیسے ہوسکتی ہیں اور میرا کیا بگاڑ یاسنوار سکتی ہیں ۔ آپ کی طبیعت اس جستجو میں رہتی کہ ایسی ذات کا پتہ لگائیں جو ان اجرامِ فلکی کی اور خود ہماری بھی نگران اور مربی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور بذریعہ وحی اس اضطراب کو دور کرکے یقینی علم عطا فرمایا۔بقول ارشادِ باری تعالیٰ ﴿وَکَذٰلِکَ نُرِی إبْرَاهِيْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالأرْضِ وَلِيَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ﴾ (الانعام:۷۵) ”اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو کائنات کے عجائبات دکھلا دیئے تاکہ اسے یقینی علم حاصل ہو۔“ کواکب پرستی کے خلاف جہاد: چنانچہ آپ نے علیٰ الاعلان نجوم پرستی اور ان عقائد ِباطلہ کی تردید اور مخالفت شروع کردی۔جس کے ردّعمل کے طور پر باپ نے آپ کو گھر سے نکال دیا اور قوم نے ملک بدر کردیا۔ مگر آپ جہاں کہیں بھی گئے، اپنا مشن اور توحید کا درس جاری رکھا۔ ہجرت کے علاوہ بھی آپ کو اس مشن کے نتیجہ کے طور پر ایک دفعہ بہت بھاری قیمت یعنی جان کی قربانی بھی ادا کرنا پڑی۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ آپ کی قوم میں ”انفرادی زندگی پر سیاروں کے اثرات کا عقیدہ“ راسخ ہوچکا تھا اور وہ ہر کام میں سیاروں کی چال ملاحظہ کرکے ان سے اچھے اور بُرے نتائج اخذ کرتے اور ان پر عمل کرتے تھے۔ ایک دفعہ قوم نے نوروز کے دن (جو اُن کے ہاں بڑا متبرک دن تھا جبکہ سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے) ان بتوں کے حضور نذرونیاز پیش کرنے کے بعد ایک میلہ پرتفریحی تقریبات منانے کا پروگرام
[1] تفصیل کے لئے دیکھئے مضمون ’’کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آذر تھا یا تارخ ؟‘‘ (ماہنامہ ’محدث‘ :جولائی ۲۰۰۰ء)