کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 21
گردش اور کشش وغیرہ کا علم بھی عطا کیا گیاتھا۔ ان علوم کے ساتھ ساتھ آپ فصاحت، علم لغت اور فن تقریر میں اتنے ماہر تھے کہ انہیں ’ہر مس( الہرامسہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے سیاروں کی اس قسم کی تاثیر سے متعلق لوگوں کے عقائد ِباطلہ کی پرزور تردید کی اور انہیں سمجھایا کہ یہ اجرام تو محض بنی نوع انسان کی خدمت پر مامور ہیں ، انسان ان کا خادم نہیں ہے۔ اصل مقصودِ کائنات انسان ہے، نہ کہ اجرامِ فلکی۔ یہ اجرامِ فلکی تو انسانی زندگی سے بہت پہلے اپنے فرائض کی بجاآوری پر اس طرح مجبور اور بے بس تھے جس طرح آج ہیں ۔ بھلا ان سیاروں کی حرکات کا انسان کے بگاڑ اور سنوار سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ گویا انسان کو اس کی عظمت ذہن نشین کراکے ایسے حقیر توہمات سے نجات دلائی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ : جب حضرت ادریس علیہ السلام کی رحلت کو کچھ عرصہ گزر گیاتو سیاروں کی گردش کے انسانی زندگی پر اثرات کے توہمات پھر انسانی ذہن میں راہ پانے لگے۔اب کی بار انسان پرشیطان کا یہ حملہ پہلے سے شدید تر اور سہ گونہ تھا۔ ایک تویہ کہ ان توہمات نے عراق کے علاوہ مصر، یونان اور ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور دوسرے یہ کہ ان توہمات کو باقاعدہ ایک نظام کی شکل دے دی گئی۔ ہرسیارے کے لئے ایک الگ دیوتا God یعنی چھوٹا خدا تجویز ہوا جو بڑے خدا کا مددگار سمجھا جاتا تھا۔ پھر ان کی شکلیں تجویز کی گئیں اور ان کے مجسمے تیار کئے گئے جو گاڑے بھی جاسکتے تھے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کئے جاسکتے تھے۔ خواہ یہ پتھر کے ہوں یا کسی دوسری دھات یا لکڑی کے اور تیسرے یہ کہ اب ان دیوتاؤں کے آگے صرف سرتسلیم ہی خم نہیں کیاجاتا تھا بلکہ ان کے حضور چڑھاوے بھی چڑھائے جانے لگے اور قربانیاں بھی پیش کی جانے لگیں ۔ جن کا خون ان دیوتاؤں کے مجسّموں یا بتوں پر مل دیا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھاکہ اس طرح ان کے یہ دیوتا خوش ہوں گے اور ہمیں کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائیں گے۔ ان بتوں کی اس ایذا رسانی کے عقیدے کو قرآن کریم نے درج ذیل آیت میں بیان فرمایا ہے:
﴿إنْ نَقُوْلُ اِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ ﴾(ہود:۵۴)
”(قوم ہود نے کہا: اے ہود!) ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا (کر دیوانہ کر) دیا ہے۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت :اس نجوم پرستی کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی قدرجلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (۲۰۰۰ق م) کو اسی علاقہ بابل میں مبعوث فرمایا۔ اس وقت عراق کا پایہٴ تخت بابل اور نمرود
[1] ہرمس ایک عظیم فلاسفر اور حکیم تھا اور سکندر کی مجلس علمی کا قائد تھا۔ جب وہ دربار میں کھڑے ہوکر اس مجلس کے سامنے تقریر کرتا تو ایسے رموز ونکات بیان کرتا کہ کہ اہل مجلس اس کی عقل ودانش پر مبہوت رہ جاتے تھے۔ یونانی حکما اس پر بہت رشک کیا کرتے تھے۔