کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 19
منتر، سیاروں کی تاثیرات، سعد و نحس کے تصورات و توہمات اور گنڈے، تعویذ اور نقش وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔
۷۔ طاغوت:بمعنی ”لات و عزیٰ و جادو و جادوگر، کاہن و دیو و ہرباطل و بت و ہرچہ بدی راسر شایک و ہرچہ جز خدا است کہ اورا پر ستند و سرکش“ (منتہی الادب) گویا طاغوت ہروہ باطل یا سرکش طاقت ہے جس نے خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کی ہو اور بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خداوندی کا علم بلند کیا ہو، خواہ یہ کوئی ایک شخص ہو یا گروہ یا ادارہ یا حکومت ہو۔ ارشادِ باری ہے
﴿اَلَم ْ تَرَ إلَی الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِنَ الْکِتٰبِ يُوٴمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ﴾
”کیا تم نے ان لوگوں پر غور کیا جنہیں کتاب اللہ کا ایک حصہ ملا ہے لیکن وہ جبت اور طاغوت کو مان رہے ہیں ۔“ (النساء:۵۱)
اس آیت میں ’کتاب اللہ‘ کے ایک حصہ سے مراد وہ حصہ ہے جو تمدنی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی احکام پرمشتمل ہے۔
۸۔حنیف:حنف (ضد جنف، طرفداری کرنا) بمعنی دوسرے راستے چھوڑ کر یکسو ہوکر دین کی راہ اختیار کرنا (جمع، حنفاء) اور اس سے مراد وہ شخص ہے جونہ تو اللہ کے سوا کسی کو اِلٰہ مانتا ہو نہ ربّ، نہ جِبت کو تسلیم کرتا اور ایمان رکھتا ہو اور نہ طاغوت کے آگے جھکے۔ ارشادِ باری ہے:
﴿وَمَا اُمِرُوْا إلاَّ لِيَعْبُدُوْا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَاءَ﴾ (البینہ:۵)
”اور انہیں تو صرف یہ حکم دیا گیا تھاکہ یکسو ہوکر دین کو اللہ کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی بندگی کریں ۔“
شرک کی تعریف اور اقسام
شرک کی مختصر الفاظ میں جو تعریف کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو حصہ دار بنایا جائے۔“ لیکن یہ تعریف اتنی مختصر ہے کہ اس کو پھر کئی عنوانوں میں تقسیم کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ًذات میں شرک، عبادات میں شرک، تعریف میں شرک، علم میں شرک، عادات میں شرک ۔ لیکن اس کے بعد بھی شرک کے کئی ایسے گوشے باقی رہ جاتے ہیں جو ان عنوانات کے تحت نہیں آتے، حالانکہ وہ کتاب وسنت سے ثابت ہیں ۔
شرک کی ایک تعریف جو قرآن کے مفہوم کو بہت حد تک ادا کر دیتی ہے ، یہ ہے کہ
”انسان اپنے کسی بھی طرح کے فائدے کے حصول یا تکلیف کے دفیعہ کیلئے اللہ کے سوا کسی بھی چیز کو… خواہ وہ چیز جاندار ہو یا بے جان ، حاضر ہو یا غائب، مردہ ہو یا زندہ…پکارے ، اس کی