کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 18
﴿ أَيُشْرِکُوْنَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ﴾ (۷/ ۱۹۰)
”کیاوہ ایسی چیزوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود پیدا کئے ہوئے ہیں ۔“
(۶) جو کھانا کھاتا ہو، وہ الٰہ نہیں ہوسکتا
﴿ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِه الرُّسُلُ وَأُمُّه صِدِّيْقَةٌ کَانَا يَأْکُلَانِ الطَّعَامَ﴾ (۵/۷۵)
” مسیح بن مریم کچھ نہیں سوائے اللہ کے پیغمبر کے، ان سے پہلے بھی رسول گزرے۔ ان کی ماں صدیقہ تھیں ۔ وہ دونوں تو کھانا کھاتے تھے۔“
گویا اللہ تعالیٰ ربّ بھی ہے اوراِلٰہ بھی۔ ربّ: اس لحاظ سے وہ کائنات کی جملہ اشیا کا پروردگار بھی ہے اور مالک بھی اور ان اشیا میں ہر طرح کے تصرف کا پورا اختیار رکھتاہے اور اِلٰہ: اس لحاظ سے کہ حقیقتاً وہ ہی حاجت روائی اور مشکل کشائی کی طاقت رکھتا ہے کیونکہ اُمورِ کائنات میں تصرف کا اختیار صرف اسی کو حاصل ہے۔ پھر اَحکم الحاکمین بھی وہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی کے جملہ اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں اور حاکمیت ِاعلیٰ بھی اسی کو سزاوار ہے۔
۵۔ اللہ: بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ لفظ اللّٰه، اِلٰهٌ سے ہی بنا ہے۔ وہ یوں کہ پہلا ہمزۂ وصلحذف کرکے اس پر ’اَل‘ تعریف کا داخل کرکے لفظ ’اللہ‘ بنا ہے۔’اِلٰہ‘ اسم نکرہ ہے جس کے معنی ہیں کوئی سا معبود۔ اور ’اللہ‘ اسم معرفہ ہے جس کے معنی ہوئے خاص معبود یاحقیقی معبود۔ اس خیال کے مطابق اکثر اہل لغت اسے ’ال ہ‘ کے تحت لائے ہیں ۔
اس کے برعکس بعض علما اس خیال کے سخت مخالف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اِلٰہ پر ’اَل‘ داخل کرنے سے سینکڑوں ہزاروں ’الہوں ‘ میں سے کون سے الہ پرزور دینامقصود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اللہ‘ ایک ایسا کلمہ ہے جو شروع ہی سے عربی زبان میں موجود تھا۔ نہ یہ کسی لفظ سے مشتق ہے ، نہ اس سے کوئی دوسرا لفظ مشتق ہے۔ گویا ’اللہ‘ اسم مُرْتَجَل ہے، عَلَم ہے اور جامد للفرد۔ عربوں کا اللہ کے متعلق تصور یہ تھا کہ وہ ہی معبود برحق ہے۔ وہی کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ وہی دعا اور پرستش کا اصل مستحق اور نفع و ضرر کا مالک ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ان کے ان معتقدات کا ذکر کئی مقامات پر دہرایا گیا ہے۔
۶۔ جبت: جِبْت کے معنی صاحب’ منتہی الادب‘ نے یوں لکھے ہیں : ”بت و کاہن و فال گری و جادو وجادوگر، وآنکہ وراں خیر نبا شد ازہر چیز غیر باری تعالیٰ کہ آں را پرستش نمایند“ یعنی بت اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔نیز کہانت، جادو، فال گیری اور ہر وہ چیز جس میں خیر نہ ہو۔ یہ لفظ دراصل اوہام و خرافات کے لئے ایک جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، جنتر