کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 17
پیروی کرتے بس یہی چیزان کی عبادت ہے۔“ اور یہ واضح ہے کہ حرام کو حلال کرنے اور حلال کو حرام کرنے کا مسئلہ خالصتاً تشریعی امور سے تعلق رکھتا ہے۔ تشریع اسلامی قانون کو کہا جاتاہے۔ ۴۔ الٰہ: اِلٰہ کا لفظ ہرمعبود پر بولاجاتاہے۔ خواہ وہ معبود برحق ہو یا باطل ۔چنانچہ اللہ کے لئے بھی یہ لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے اور دوسرے ہر طرح کے معبودانِ باطل کے لئے بھی۔ اور اہل عرب سورج کو اِلٰهَة کہہ کرپکارتے تھے کیونکہ انہوں نے سورج کو معبود بنارکھا تھا۔(مفردات از امام راغب)۔ سورج عربی زبان میں بطورِ موٴنث استعمال ہوتا ہے اوراِلٰہ کی مونث اِلاَھَة آتی ہے۔ اب اس لفظ اِلہ کی لغوی لحاظ سے خصوصیات درج ذیل ہیں : (۱) اَلِهَ اَلَهًا سرگشتہ شد (حیران ہوا) (۲) اَلِهَ اِلَيْهِ ترسید و پناہ گرفت (اس سے ڈرا اور اس کی طرف پناہ پکڑی) (۳) اَلَهَه امان و زنہار داد (ا س نے اسے امان اور حفاظت دی) (۴) اَلِهَ اِلاَهَةً پرستید(اس کی پرستش کی) (منتہی الادب) (۵) بعض کے نزدیک لفظ اِلٰه دراصل وِلاَہٌ تھا، ہمزہ کو واؤ سے بدل کر اِلٰهٌ بنا لیا اور وَلِهَ بمعنی عشق و محبت میں وارفتہ اور بے خود ہونا( اردوزبان میں لفظ والہانہ محبت مشہور ہے)۔ اور چونکہ مخلوق کو اپنے إلہ سے بہت محبت ہوتی ہے۔ اس لئے اسے اِلٰه کہا گیا (مفردات) (۶) بعض کے نزدیک لفظ اِلٰه لَاهَ يَلُوْهٌ لِيَاهًا سے ہے بمعنی پردہ میں چھپ جانا (مفردات) ان سب معانی کوسامنے رکھا جائے تو ایک معبود (الٰہ)میں درج ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے : (۱) اتنی طاقت رکھتا ہو کہ شر سے پناہ دے سکے، گویا وہ کوئی بالادست ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ (۲) اس کی اس مشکل کشائی اور پناہ دہندگی ظاہری اسباب و علل پر منحصر نہ ہو بلکہ مستور و محجوب ہو۔ گویا یہ پناہ دہندگی یا حجت براری حیران کن طریقہ سے ہو۔ (۳) پھر ایسی ہستی سے اس کے طالب کا اشتیاق و محبت تو ویسے ہی ایک ناگزیر امر بن جاتاہے۔ (۴) تخلیق کرنے کی صلاحیت ﴿ إِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَه﴾ (۲۲/ ۷۳) ”جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ اس کے لئے سب مجتمع ہوجائیں ۔“ (۵) جو خود مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتا