کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 16
صلہ یا سرکشی کی پاداش میں دی جائے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ۳۔ ربّ:کا لفظ چار معنوں میں آیا ہے: (۱) ربّ (مصدر) بمعنی کسی کو پرورش کرکے حد ِکمال تک پہنچانا اور اس کی جملہ ضرورتوں کا خیال رکھنا (مفردات)۔ مگریہ لفظ عموماً بطورِاسم فاعل ہی استعمال ہوتاہے جیسا کہ فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ﴾ (الفاتحہ:۱) ”سب تعریف اللہ ہی کو سزا وار ہے جو تمام جہانوں کا پرورش کنندہ ہے“ اس لحاظ سے الربّ صر ف اللہ تعالی ہی ہوسکتا ہے اور اس لفظ کا مصدر ربوبیة آتا ہے۔ اور اس کی جمع نہیں آتی۔ (۲) یعنی آقا و مالک جو کسی کی تربیت کاذمہ دار ہو۔ان معنوں میں ا س کا مصدر ربوبیة کے بجائے ربابیة آتا ہے۔جمع أرباب( المفردات) قرآن میں ہے: ﴿يٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ أمَّا أحَدُکُمَا فَيَسْقِیْ رَبَّهُ خَمْرًا﴾(یوسف:۴۱) ”(یوسف نے کہا) اے میرے جیل کے رفیقو! تم میں سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔“ (۳) بمعنی صرف مالک جسے اپنی مملوکہ چیز میں تصرف کا پورا پورا اختیار ہو۔ جیسے ربّ الناقة بمعنی اونٹنی کا مالک۔ ربّ ا لکعبة بمعنی بیت اللہ کا مالک ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ درج ذیل آیت میں مستعمل ہوا ہے: ﴿فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ﴾ (قریش:۳) ”تو لوگوں کو چاہئے کہ وہ (اس نعمت کے شکر میں ) اس گھر (کعبہ) کے مالک کی عبادت کریں “ (۴) چوتھا معنی’قانون دہندہ‘ اس کی پوری تصریح ایک حدیث میں مذکور ہے۔ عدی بن حاتم جو پہلے عیسائی تھے، ۹ ہجری میں اسلام لائے۔ان کے اسلام لانے کے بعد جب سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی ﴿إتَّخَذُوْا أحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا اُمِرُوْا إلاَّ لِيَعْبُدُوْا الٰهًا وَّاحِدًا﴾(التوبہ:۳۱) ”ان (عیسائیوں ) نے اپنے علما اور مشائخ کو اللہ کے علاوہ اپنا ربّ بنا لیا اور مسیح ابن مریم علیہ السلام کو بھی حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ۔“ تو عدی بن حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ وہ لوگ (عیسائی) اپنے علماء و مشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے، آپ نے فرمایا: بلیٰ إنهم حرموا عليهم الحلال وأحلوا لهم الحرام فاتبعوهم فذلک عبادتهم إياهم ( ترمذی، ابواب التفسیر) ”کیوں نہیں ، وہ علماء و مشائخ ان کے لئے حلال کو حرام قرار دیتے اور حرام کو حلال۔پھر وہ ان کی