کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 15
(۲) بمعنی سر عجزو نیاز خم کرنا…معروف معنوں میں پوجا پاٹ اور پرستش کے وہ طریقے جومشہور ہیں ۔ (عبادت، جمع عبادات) خواہ یہ اللہ کی ہو یا کسی دوسرے کی ۔جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿قَالُوْا أنَعْبُدُ أصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاکِفِيْنَ﴾(الشعراء:۷۱) ”ابراہیم کی قوم کہنے لگی کہ ہم تو بتوں کو پوجتے ہیں اور ان (کی پوجا) پر قائم ہیں ۔“ (۳) بمعنی محض اطاعت اور فرمانبرداری جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے فرمایا: ﴿يٰاَبَتِ لاَ تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ﴾(مریم :۴۴) ”اے میرے والد! شیطان کی اطاعت نہ کیجئے۔“ ۲۔ دین: دین کالفظ چارمعنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور یہ لغت ِاضداد سے بھی ہے۔ دین کا معنی (۱) مکمل حاکمیت بھی ہے اور (۲) مکمل عبودیت بھی ۔ ارشادِ باری ہے ﴿اَلاَ لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ﴾ (الزمر:۳) ”غور سے سن لو کہ خالص عبادت صرف اللہ ہی کو زیبا ہے۔“ اس آیت میں دین کا لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے جو آپس میں متضاد ہیں ۔ اس آیت کا اگر یوں ترجمہ کیا جائے کہ مکمل حاکمیت اللہ ہی کے لئے ہے،تو بھی مفہوم وہی نکلتا ہے یعنی اس کے بندے اس کی مکمل حاکمیت سمجھیں اور اس کی مکمل اطاعت و عبادت کریں ۔ (۳) قانونِ جزا وسزا جیسے سورۂ یوسف میں فرمایا: ﴿مَاکَانَ لِیَأخُذَ أخَاهُ فِیْ دِيْنِ الْمَلِکِ﴾(یوسف:۷۶) ”شاہی قانون کے لحاظ سے یہ ناممکن تھا کہ یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو اپنے ہاں روک لیتے“ (۴) مکافاتِ عمل… یعنی قانونِ جزاوسزا کے مطابق اس کا عملی نفاذ۔جیسے فرمایا: ﴿مَالِکِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾(الفاتحہ:۴) ”(وہ اللہ) جزا و سزا کے دن(قیامت کے دن) کا مالک ہے۔“ درج ذیل آیت میں دین کا لفظ یہ دونوں مفہوم ادا کررہا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَوْلاَ إنْ کُنْتُمْ غَيْرَمَدِيْنِيْنَ تَرْجِعُوْنَهَا إنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ﴾ (الواقعہ:۸۶،۸۷) ”پھر اگر تم سچے ہو اور تم پر ہمارا قانونِ جزاوسزا لاگو نہیں ہوسکتا تو تم اس (مرنے والے کی روح کو) واپس پھیر کیوں نہیں لیتے۔“ گویا دین کا لفظ ایک مکمل نظام کی نمائندگی کرتا ہے اور مذکورہ بالا چار وں معانی اس کے اجزائے ترکیبی ہیں یعنی (۱) مکمل حاکمیت یا اقتدارِاعلیٰ (۲) حاکمیت کے مقابلہ میں مکمل تسلیم و اطاعت (۳) وہ نظامِ فکروعمل جو اس حاکمیت کے زیر اثر بنے اور (۴) وہ جزاو سزا جو حاکم اعلیٰ کی طرف سے اطاعت کے