کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 14
ونقصان کاکچھ بھی اختیار نہیں ۔“
اور مشرکین کی اس توہم پرستی کا عقلی اور مشاہداتی جواب یہ دیا کہ اللہ کے سواباقی چیزیں جنہیں تم اپنا مددگار سمجھتے ہو وہ تو خود اپنے نفع و نقصان کی بھی مالک نہیں تو پھر وہ تمہارا کیابگاڑ یا سنوار سکتی ہیں ۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
﴿قُلْ أفَاَتَّخَذْتُمْ مِنْ دُوْنِه أوْلِيَاءَ لاَ يَمْلِکُوْنَ لأنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّلَاضَرًّا﴾ (الرعد:۱۶)
”(اے پیغمبر!) ان سے کہہ دو کہ اللہ کے سوا جن کو تم نے اپنا مددگار بنا رکھا ہے ، وہ تو اپنے بھی نفع ونقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔“
اس دنیا میں اگر کوئی سب سے بلند مقام ہستی ہوسکتی ہے تو وہ اللہ کا رسول ہی ہوسکتا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست بھی تعلق ہوتا ہے اور جبریل کے واسطہ سے بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی بلند ہستی بھی نہ اپنے نفع و نقصان کی خود مالک ہوتی ہے، نہ ہی کسی دوسرے کو کچھ فائدہ یا نقصان پہنچاسکتی ہے۔تو پھر دوسری چیزوں کا ذکر ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ سے فرماتے ہیں :
﴿قُلْ إنِّیْ لَا أمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلاَ رَشَدًا﴾(الجن:۲۱)
” ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان یا بھلائی کاکچھ اختیار نہیں رکھتا۔“
توحید و شرک سے متعلق چند شرعی اصطلاحات
مناسب ہوگا کہ شرک کی مختلف اقسام بیان کرنے سے پیشتر ان چند الفاظ کا لغوی مفہوم بیان کردیا جائے جو شرک کے بیان میں تکرار سے آتے ہیں اور شرعی اصطلاح کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور وہ ہیں : عبد اور عبادت …دین… ربّ… الٰہ… اللہ… جبت… طاغوت… حنیف
۱۔ عبد:بمعنی بندہ، غلام ، محکوم(عباد اور عبید) اور عبادت کا لفظ عموماً تین معنوں میں قرآن میں آیا ہے
(۱) بمعنی بندگی، غلامی اور محکومی … جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿فَقَالُوْا أنُوْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ﴾ (المومنون:۴۷)
”فرعون کے درباری کہنے لگے: بھلا ہم ایسے دو آدمیوں (موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام ) پرایمان لا ئیں جن کی قوم ہماری غلام ہے۔“
اب یہ تو ظاہر ہے کہ آج تک شیطان کی کسی نے پوجاپاٹ نہیں کی، نہ ہی اسے کسی نے کبھی آقا سمجھا، لہٰذا یہاں مفہوم، شیطانی وساوس کی پیروی ہی ہوسکتی ہے۔
اور عَبَّد بمعنی کسی دوسرے کو محکوم اور غلام بنانا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو مخاطب کرکے فرمایا:
﴿وَتِلْکَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ أنْ عَبَّدْتَ بَنِیْ اِسْرَائِيْلَ﴾ (الشعراء: ۲۲)
”اور (کیا) یہی احسان ہے جو تو مجھ پر رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔“