کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 11
کی تصنیف کردہ ہیں جنہیں ’سنی‘ بھی اسی شوق سے پڑھتے ہیں ۔ درسِ نظامی کی تدوین ہوئے صدیاں گذر گئی ہیں ، اگر اس نصاب کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تصادم فروغ پاتا تو تاریخ اس کے متعلق کبھی خاموش نہ رہتی۔ کیا یہ ناقابل تردید حقیقت نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں شیعہ اور سنی مسلمان نہایت امن کے ماحول میں رہے ہیں ۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے بعض گروہوں کے درمیان موجودہ خون ریز تصادم، جن کا ذکر جنرل پرویزمشرف نے بھی تفصیل سے کیا، کی وجوہ داخلی نصاب اور تربیت ہرگز نہیں ہیں ۔ بعض جذباتی تنظیموں کا رویہ درحقیقت نتیجہ ہے ماضی قریب کی خارجی سیاست اور بین الاقوامی کشمکش کا جو گذشتہ بیس پچیس برسوں کے دوران پروان چڑھی ہے۔ اربابِ بست و کشاد عالم اسلام میں برپا ہونے والی ان معروضی تبدیلیوں سے لاعلم نہیں ہیں ۔ دینی مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کرنے والے سیکولر دانشور اور حکومتی ذمہ داران نجانے ان حقائق کو نظر انداز کیوں کردیتے ہیں؟ مزید برآں ملا نظام الدین نے چار سو سال پہلے جس درسِ نظامی کو ترتیب دیا تھا، اس کا منبع و مرکز وسط ایشیا کی ہند کی طرف گزرگاہیں افغانستان اور ایران کے علاقے تھے، جہاں فارسی کا رواج زیادہ تھا۔ پاکستان میں دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا درسِ نظامی بہت حد تک پہلے ہی تبدیل کیا جاچکا ہے۔ اب سعودی عرب، عراق، شام ومصر کے مشہور جامعات کی متعدد کتابیں شامل کی جاچکی ہیں ۔ امریکہ میں ۱۱/ ستمبر کے واقعات کے بعد اسلام دشمن یہودی لابی نے پراپیگنڈہ شروع کررکھا ہے کہ مذکورہ دہشت گردی کا اصل محرک قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں یہودیوں اور نصرانیوں سے مسلمانوں کو دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ وہ الزام تراشی کررہے ہیں کہ دینی مدارس اور مساجد میں قرآنی تعلیمات دہشت گردی کے جذبات کو فروغ دے رہی ہیں ، وہ تو چاہتے ہیں کہ مسلمان قرآنِ مجید کو یکسر بھلا دیں ۔ کچھ ایسا ہی انداز ہمارے سیکولر دانش وروں نے دینی مدارس کے نصاب کے متعلق اپنا رکھا ہے، وہ درحقیقت پاکستان میں دینی مدارس کی تباہی پر مبنی امریکی ایجنڈے پرعملدرآمد کے لئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں ۔ ان شاء اللہ پاکستان کے اسلام پسندیہود ونصاریٰ کی اس ناپاک سازش کو ناکام بنا دیں گے۔ ہم یہ مطالبہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ حکومت دینی مدارس اور جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی محض امریکہ اور بھارت کے دباؤ کے نتیجے میں مت کرے۔ اب تک جس انداز میں ’کریک ڈاؤن‘ کیا گیا ہے، اس سے تو یہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے علماءِ کرام سے ملاقات کے دوران جو یقین دہانی کرائی تھی، اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ حقیقتاً دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور افواجِ پاکستان نظریہٴ پاکستان یعنی اسلام کی محافظ ہیں ۔ یہ دونوں ادارے فطری حلیف ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان کسی قسم کی محاذ آرائی، خواہ وہ بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہو یا کسی اور وجہ سے، ہمارے قومی اور ملی مفاد کے منافی ہے۔ ٭ ٭