کتاب: محدث شمارہ 256 - صفحہ 10
پڑھانے پر توجہ دی جائے جتنی میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں دینیات پڑھائی جاتی ہے تاکہ یہ ادارے یکسوئی سے جید، روشن خیال اور دینی علوم کے ماہر علماء کرام پیدا کرسکیں جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو حال سرکاری شعبے میں تعلیمی اداروں اور جامعات کا ہے، دینی مدارس کا اس سے برا نہیں کیونکہ یہ ادارے تو چندے اور عطیات سے چلتے ہیں اور محدود وسائل میں جتنا کام کررہے ہیں ، وہ قابل قدر ہے۔“
آخر میں ہماری گذارش ہے کہ اگر حکومت فی الواقع پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ذرا بھر بھی سنجیدہ ہے تو اسے اس افسوسناک مظہر کے حقیقی اسباب کا معروضی جائزہ لینا چاہئے، فرقہ وارانہ تشدد کا حقیقی سبب نہ تو دینی مدارس کا نصاب ہے اور نہ ہی یہ مدارس اس شیطانی کام میں شریک ہیں ۔
ہمارے ہاں کے لادین دانشوروں نے درسِ نظامی کے حوالہ سے دینی مدارس کے نصاب پرتنقید کو فیشن اور شغل بنا رکھا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ذاتِ شریف درسِ نظامی میں شامل ۵۰ سے زائد کتابوں میں سے دو چار کے نام گنوا سکیں ۔ ان سیکولر دانش بازوں کی اکثریت درسِ نظامی کے متعلق اتنا ہی علم رکھتی ہے جتنا کہ عام دینی مدارس کے طلبا آئن سٹائن کی تھیوری کے بارے میں جانتے ہیں ۔ مگر اس جہالت اور لا علمی کے باوجود وہ دینی مدارس کے نصاب اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے درمیان ربط و تعلق پیدا کرتے ہوئے نہ کسی خوفِ خدا کا لحاظ رکھتے ہیں ، نہ ہی مادّہ پرستانہ معاشروں کی وضع کردہ علمی دیانت کا انہیں پاس ہوتا ہے۔
جناب معین الدین حیدر اور دینی مدارس کے متعلق متعصبانہ خیالات رکھنے والے سیکولر دانشور ’علماء کو چند قاعدے پڑھنے والے جاہل‘ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں آزاد ہیں ، مگر تعصب کے اس پراگندہ ماحول سے باہر نکل کر اگر معمولی سا غوروفکر کرنے کے لئے ان کی طبائع کبھی آمادہ ہوں ، تو ہم ان کی اطلاع کے لئے بتانا چاہتے ہیں کہ درس نظامی میں ۱۸ مختلف علوم پر مبنی تقریباً ۵۰ کتب شامل ہیں ، جن میں احادیث کی دس بنیادی کتب اور تفاسیرکی پانچ معرکة الآرا کتابیں بھی ہیں ، محض گرامر کے علم صرف کے متعلق ۱۳ کتابیں اس نصاب کا حصہ ہیں ۔ خالصتاً الہامی علوم کے علاوہ علم ہیئت و فلکیات اور فلسفہ پر بھی کافیکتابیں اس کا حصہ ہیں ۔ پرانے درسِ نظامی میں اقلیدس (جیومیٹری) کی اہم اساسی جو ضخیم تصنیف شامل تھی، اس کو جدید یونیورسٹیوں کے ریاضی دان بھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
جو لوگ دینی مدارس کے نصاب کو فرقہ وارانہ کشمکش میں اضافہ کا باعث سمجھتے ہیں ، وہ بھی سخت غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ انہیں شاید معلوم نہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ درسِ نظامی کا بڑا حصہ صرف و نحو اور منطق وفلسفہ پر مشتمل ہے اور ان علوم کا درسِ نظامی میں شامل زیادہ تر ذخیرہ بالخصوص صرف نحو و فلسفہ کی کتب شیعہ مصنّفین