کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 9
ان کی نفرت کا اندازہ ان کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور اتحادی ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹم بم مار کر تباہ کردیں (خاکم بدہن) کیونکہ یہ اس خطے میں سب سے بڑا شیطان ملک ہے… شمالی اتحاد کا یہ تعارف اور اس کے راہنماؤں کی مذکورہ ذہنیت پاکستان اور افغانستان کے درمیان آئندہ تعلقات کی سطح کو سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ تبصرہ و تجزیہ ۱۳/ نومبر کو سقوطِ کابل کے وقوع پذیر ہونے کے بعد افغانستان کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔ امریکہ اور اس کے نام نہاد اتحادیوں کو بظاہر ایک بڑی کامیابی ملی ہے مگر بدلتی ہوئی صورتحال نے انہیں بھی اپنی حکمت ِعملی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ شمالی اتحاد نے اگر چہ امریکیوں کے اشارے سے کابل پر قبضہ کیاہے ، مگر ان کے ہوتے ہوئے امریکیوں کو اپنی مرضی کے مطابق افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے میں دشواریوں کاسامنا ہے۔ طالبان بدستور قندھار اور چند دیگر صوبوں میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ۔ طالبان کی ’تزویراتیپسپائی‘ نے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی چونکا کر رکھ دیا ہے۔شمالی اتحاد کے کابل پر قبضہ کے ایک ہفتہ بعد بھی سیاسی عمل تیزی سے آگے نہیں بڑھا۔ طالبان کے کابل خالی کرنے کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا، شمالی اتحاد کی افواج نے فوجی اعتبار سے تو ایک حد تک اس خلا کو پر کر دیا ہے مگر سیاسی معنوں میں یہ خلا بدستور باقی ہے ۔حالات مزید کیا رُخ اختیار کریں گے؟ افغانستان کے تھیٹر پر کون کون سے کردار کیا کیا اداکاری کر سکیں گے؟ افغانستان میں امن وامان کی صورتحال کس کروٹ بیٹھے گی؟ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی اب نوعیت کیاہوگی؟ اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں جوہر صاحب ِفکر کے ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں ۔اس وقت یقین کے ساتھ کوئی بات کہنا مشکل ہے مگر پھر بھی معروضی حقائق کی روشنی میں اگر حالات وواقعات کا تجزیہ کیا جائے تو درج ذیل نکات غور وفکر کے متقاضی ہیں : (۱) سقوطِ کابل کے بعد افغانستان میں پاکستان اب کوئی موٴثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔امریکہ جو جنرل مشرف کی حکومت کے سامنے بچھا جا رہا تھا، اب اس کے نزدیک پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جس کا اظہار گزشتہ دو ماہ میں وہ تسلسل کے ساتھ کرتا رہا ہے۔تخت ِکابل پر پاکستان دشمن شمالی اتحادکا قابض ہونا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی شدید ناکامی کا مظہر ہے۔پاکستان کی جانب سے کابل کوامن فوج کے حوالے کرنے اوروسیع البنیاد حکومت میں پختونوں کو موٴثر نمائندگی دینے کا مطالبہ درخورِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔انگریزی روزنامہ’دی نیوز‘ جو مشرف حکومت کی پالیسی کی مسلسل حمایت کرتا رہا ہے، ۱۴/نومبر کے اداریے میں اس تلخ حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے :