کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 63
فراموش کرکے اس کی توبہ تو قبول کرلیتا ہے لیکن ستم ظریفی کہ لڑکی کے گناہ کو معاشرہ کبھی معاف نہیں کرتا۔ اب وہ نوجوان لڑکی جائے توکہاں جائے اور نکاح کرے تو کس سے کرے کیونکہ اسے کوئی نکاح میں لینے والا نہیں ہے اور دوسری طرف زنا آسان اور شادی مشکل ہے اور پھر جوانی کی وجہ سے جنسی خواہش بھی اپنے جوبن پر ہے اور بدکاری و زنا کاری سے روکنے والا بھی کوئی نہیں ہے!! آپ کہیں گے، کیا ہم نے شادی سے منع کیا ہے۔ جی ہاں ! آپ نے ہی شادی سے منع کیا ہے۔ لیکن زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے آپ نے شادی کومشکل بنا دیا ہے۔ جنسی رغبت ۱۵ سال کی عمر میں شروع ہوجاتی ہے اور ۲۵ سال کی عمر تک اپنے عروج پرپہنچ جاتی ہے۔ اگر نوجوان اس عرصے میں شادی کرنا چاہیں تو کیسے کریں جبکہ ابھی اِن کی تعلیم باقی ہے اور اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ اور امریکہ چلا جائے تو یہ عرصہ مزید لمبا ہوجائے گا۔ اب بتائیے اس دوران وہ نوجوان کیا کرے گا ؟اگر وہ شادی کرنے کا ارادہ کر بھی لے تو اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے اتنا مال کہاں سے لائے گا ۔وہ بڑی عمر کو پہنچنے کے باوجود بھی بچوں میں شمار ہوگا ،کیونکہ ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی ۔بڑا لمبا تڑنگا جوان ہے اور بڑے مہنگے کپڑے پہنتا ہے لیکن وہ کما نہیں سکتا۔ حالانکہ آج سے ۶۰ یا ۷۰ سال پہلے اس عمر کا نوجوان صاحب ِکسب اور صاحب ِاولاد ہوتا تھا۔ اگر بالفرض اس کے پاس مال بھی موجود ہو تو کیا اس کے والدین اس کی شادی کردیں گے؟نہیں ! ہرگز نہیں ۔اس لئے میں یہ کہوں گا کہ اس مشکل کاسبب دراصل لڑکیوں کے والدین ہیں جنھوں نے اپنی بیٹیوں کے لئے نکاح جو کہ حلال ہے ، کے علاوہ باقی تمام حرام کاموں کو آسان بنا دیا ہے۔ آج اسلامی ممالک کی حالت ہر ایک کے سامنے ہے۔ ان ممالک میں نوجوان لڑکیاں زیب وزینت سے آراستہ ہو کر گھروں سے باہر نکلتی ہیں اور لوگوں کو فتنے میں ڈالتی ہیں اور اگر ان کے والدین سے کوئی نیک فرمانبردار اور متقی آدمی نکاح طلب کرے تو اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتاہے جو کسی عربی قیدی کے ساتھ اسرائیل میں کیا جاتاہے۔ والدین نکاح کا پیغام بھیجنے والے پر بڑے بھاری بوجھ ڈال کر، بار بار اس کے گھر میں آکر ، عمدہ کھانے تناول کرکے اور قیمتی تحفے تحائف وصول کرکے اس کا ستیاناس کردیتے ہیں ۔ بالآخر وہ بیچارہ تھک جاتا اور شکست خوردہ ہو کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر وہ صبر تحمل سییہ تمام بھاری اخراجات برداشت کرتا رہتاہے اور جو اس نے اس دن کے لئے مال جمع کیا تھا، وہ سارے کا سارا شادی سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے اور وہ بیچارہ نہایت غربت و افلاس یا مقروض ہو کرازدواجی زندکی کے میدان میں قدم رکھتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے