کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 62
کہ یہی لوگ مہذب شہری ہیں ،ہم بھی یہی کریں گے۔ چنانچہ ہم لاشعوری طور پر اپنی اسلامی تہذیب وتمدن، ثقافت اور کلچر کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوگئے۔ ہم نے نوجوان لڑکی سے کہا کہ شادی کی ابھی ضرورت نہیں ہے، شادی کے ذریعے بھی نوجوان حرام کاری میں پڑسکتے ہیں اس لئے کہ والدین بہت زیادہ حق مہر طلب کرتے ہیں ،انہوں نے اپنی بیٹیوں کو نفع بخش تجارت کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ والدین نے اپنی نوجوان بیٹی کو صحیح معنوں میں شریف اور پاکدامن بنانے میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہم نے نیک فرمانبردار اور متقی آدمی کو اپنی بیٹی کا نکاح دینے سے انکار کردیا اور اپنی بیٹی کو شتر بے مہار چھوڑ دیا کہ وہ جیسے چاہے اپنی زیب و زینت اور حسن و جمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں پر اپنی خوبصورتی اور جوانی کا جادو چلاتی پھرے۔ بسا اوقات والدین محض اپنی بیٹی کی ملازمت کی تنخواہ کا طمع کرتے ہوئے اس کی شادی نہیں کرتے۔ اگر کوئی انہیں یہ کہہ دے کہ آپ کی بیٹی جوان ہے، اس کی شادی کردیں تو والدین آگے سے جھٹ کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی ہے اور ہم اس کے بارے میں آزاد ہیں ۔ ہم جب چاہیں جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں اس کی شادی کریں یا نہ کریں کسی کو کیا اعتراض ہے۔ میرے عزیز مخاطب ! تو اس بارے میں آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ کے حکم کا پابند ہے۔ تیری بیٹی کوئی گائے اور بکری تو نہیں کہ تو اس کا مالک ہے ، چاہے اسے فروخت کردے، چاہے اپنے پاس رکھے، بلکہ وہ بھی تیری طرح کا ایک انسان ہے۔ اللہ نے اس کی مصلحت کی خاطر تجھے اس پر وَلی اور نگران بنایا ہے تاکہ تو اسے ہر اس کام سے بچائے جو اس کے دینی اور دنیوی مفاد کے خلاف ہو۔ نکاح کے سلسلہ میں ولایت کی وہی اہمیت ہے جو گاڑی میں بریک کی ہوتی ہے، وہ گاڑی کوایکسیڈنٹ اور شجر و حجر اور درودیوار کے ٹکرانے سے روک لیتی ہے۔ بعض والدین نے نکاح مشکل اور زنا آسان کردیا ہے اور قربانی کا بکرا نوجوان بیٹی کو بننا پڑتا ہے۔ آوار مزاج نوجوان لڑکا اسے بہلا پھسلا کر اس سے زنا کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ لڑکی حاملہ ہوجاتی ہے اور اس سے بدکاری کرنے والا لڑکا چپکے سے نکل جاتا ہے اور اس گھناوٴنے جرم کی سزا اکیلی لڑکی کو بھگتنا پڑتی ہے، اب بدنامی کا دھبّہ اس کی پیشانی پر لگ جاتا ہے اور معاشرہ میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نکاح کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اسی زانی لڑکے سے کہا جائے کہ تو اپنی گرل فرینڈ سے شادی کرلے تو وہ بھی یہ کہہ کر انکار کردے گا کہ اگر یہ میرے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کرسکتی ہے تو اس پر کیا اعتبار کہ اس نے کسی اور سے خفیہ تعلقات قائم نہ کئے ہوں ۔ بالآخر نوجوان لڑکا توبہ کرلیتا ہے اور معاشرہ اس کے جرم کو