کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 61
گرنے کے لئے بے تاب ہیں ۔
اگر مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی کہ میں بھی اس معاشرے کا ایک فرد ہوں یا میں اس تکلیف دہ صورت حال کومزید تکلیف دہ نہ بنا دوں تو میں ضرور کہتا کہ اے لڑکی کے ماں اورباپ! اس کربناک صورتحال کے ذمہ دار تم خود ہو ۔ اگر لعن طعن کرنا جائز ہوتا تو تمام لوگوں سے زیادہ لعنت کے سزاوار تم تھے۔ اگر تم اپنے گھر اور اپنی بیٹی کی نگرانی کرتے اور اپنی لڑکی کے معاملہ میں غفلت و سستی نہ کرتے اور اپنی لڑکی کے اُٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے اور آنے جانے پر کڑی نظر رکھتے اور اسے زرق برق اور تنگ لباس پہنا کر ننگے منہ باہر نہ نکلنے دیتے اور اسے اپنے گھر کی نوکرانیوں کے حوالے ہی نہ کردیتے تو شاید آج تمہیں اس ذلت و رسوائی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔
میں سکول کو بری الذمہ قرا ردیتا ہوں ، نہ معاشرے کو بے قصور سمجھتا ہوں ۔ والدین، اساتذہ، صحافی اور علما اور دیگر لوگ جن کے ہاتھ میں معاشرہ کی باگ ڈور ہے، سب اپنی اپنی جگہ مسئول اور ذمہ دار ہیں ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام لوگوں میں سے سب سے آخری اور ہلکی ذمہ داری اس راہ گم کردہ لڑکی پر عائد ہوتی ہے۔ بہرحال ہم بے حیائی، فحاشی اور فسق و فجور کو ہر حال میں اور ہر جگہ پر اور ہر ایک کے لئے ناپسند کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر مرد و عورت کے اندر جنسی خواہش کو پیدا فرمایا اور اس جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک طریقہ کار متعین کیاجس کے اندر رہ کر مرد اور عورت اپنی جنسی پیاس بجھا سکتے ہیں اور وہ طریقہ کار شرعی نکاح کا ہے۔ جس طرح پانی نہر کے کناروں کے درمیان چلتا رہے تو ٹھیک رہتا ہے اور اس سے زیادہ فائدہ حاصل کیاجاسکتا ہے لیکن اگر نہر کا بند ٹوٹ جائے تو یہی پانی تباہی اور بربادی پھیلا دے گا کیونکہ اس نے اپنی اصل گزر گاہ کو چھوڑ دیا ہوتا ہے۔ چنانچہ نہرکا بند ٹوٹنے سے کھیتیاں غرق ہوجاتی اور فصلیں اور نسلیں برباد ہوجاتی ہیں ۔مرد اور عورت کی جنسی خواہش کو کنٹرول کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور یہ نکاح ان کے جنسی جذبات کے لئے فطرتی گزرگاہ ہے اور جو فطرتی گزرگاہ اختیار نہیں کرے گا، ظاہر بات ہے وہ سرکشی اور طغیانی کا شکار ہوگا یعنی زناکاری اور بدکاری کی دلدل میں گر جائے گااور یہی زناکاری پورے معاشرے کے لئے بربادی کا موجب بن جائے گی۔ أعاذنا اللّٰه منه
چنانچہ ہم نے یہی کیا ،اللہ تعالیٰ کی فطرت کی مخالفت کی اور طبعی گزرگاہ کو بند کردیا،اسے تمام حدودو قیود سے آزاد کر دیا اور شہوت کے اسسیل بلا کو اس کے بہاوٴ پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسے چاہے شہروں کو برباد اور نسلوں کو تباہ کرتا پھرے۔جب ہم نے دیکھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ یہی کچھ کرتے ہیں تو ہم نے کہا