کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 59
تہذیب ِجدید کے فتنے تحریر :شیخ علی طنطاوی، مصر
مترجم : عبدالمالک سلفی
إرحموا الشباب نئی نسل پر رحم کی فریاد!
میں نے آج سے ۳۱ سال پہلے ریڈیو دمشق سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی اور خیال یہ تھاکہ مدت بیت گئی،عصری تقاضوں سے اس کی مناسبت ختم ہوگئی اور یہ موضوع ایک قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ ایک دن اپنے لکھے گئے کالموں کی ورق گردانی میں میرا یہ پرانا کالم میرے ہاتھ لگا۔جب میں نے اس کامطالعہ کیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ موضوع پرانا نہیں بلکہ نیا اور تازہ ہے۔گویا گذشتہ ۳۰ سالوں سے اصلاح کی جانب ہماری ذرا بھی پیش رفت نہیں ہوئی اور ہمارے خطبے ،وعظ و ارشاد اور مقالات وغیرہ سببے کار گئے۔ زمانہ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ شایدہزارقارئین اور سامعین میں سے ایک بھی ایسانہیں جس نے اسے پڑھ یا سن کر اپنی اصلاح کی ہو۔اس لئے میں سمجھتا ہو کہ اس موضوع کا فائدہ اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے ۔ الحمدللہ… جس طرح کل اس کے مفید ہونے کی اُمید تھی، آج بھی اس کے مفید ہونے کی اُمید ویسے ہی موجود ہے۔
میں خوب جانتا ہوں کہ اس موضوع پر بڑی طویل گفتگو ہو چکی ہیں ۔ لیکن میں کیا کروں جب میں اپنے محلے میں لوگوں کو آگ میں جلتا دیکھتا ہوں اور مجھے ہرگھر سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔میں نے دعوت دی لیکن کسی نے میری دعوت پر لبیک نہ کہا ۔ میں نے آگ بجھانے کے لئے مدد طلب کی لیکن کوئی بھی میری مدد کو نہ پہنچا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ بس میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور اب میں جاکر سوجاؤں اور کمبل اوڑھ کر اس میں اپنا چہرہ چھپا لوں ؟بے شک صحافی ، منبر کے خطیب اور سکول کے ٹیچر اور ہروہ آدمی جو اصلاح کے کام میں حصہ داربننے کی استطاعت رکھتا ہے، کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اصلاح کے اس کام میں اپنی سر توڑ محنت کو ہر حال میں جاری رکھے ، اگرچہ اس کی یہ محنت جلد ثمر آور ثابت نہ ہو۔ اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ لوگ اکتا گئے ہیں ۔
میں کوئی گلوکار تو نہیں جو لوگوں کو ہنسا کر ان کی اکتاہٹ کو دور کرنے کا سامان کر وں اور نہ میں کوئی بھانڈ ہوں کہ لوگوں کو خوش کرتا پھروں ۔ میں تو ایک طبیب ہوں اورلوگوں کا علاج کرنا چاہتا ہوں ۔ اگر ایک طبیب کے پاس ایک ہی مرض میں مبتلا ۲۰ مریض آجائیں تو کیا وہ طبیب اکتا کر اپنا کلینک بند