کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 52
صحیح مسلم کے اسی صفحہ پر حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب کی نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ “ (مسلم: رقم ۶۷۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (صحیح سنن ابوداود : رقم ۱۲۸۰)
”جب بنو سلیم کے چند قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ نے ستر قاری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے قتل کردیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامہینہ بھر یہ معمول رہا کہ آپ لگاتار ظہر، عصر، مغرب، عشا اور فجر پانچوں نمازوں میں ہر نماز کی آخری رکعت میں سمع اللّٰه لمن حمده الخ کے بعد ان کے حق میں بددعا کرتے، ان پر لعنت بھیجتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے آمین آمین کہتے تھے۔ “
صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے کہ بعض اسیرانِ بلا کی نجات کے لئے آپ نے صرف عشاء کی نماز میں قنوت پڑھنے کا معمول بنایا۔(مسلم: ۶۷۵)
جب احادیث ِمذکورہ بالا سے واضح ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک نماز میں ، کبھی دو تین اور کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت فرمائی ہے تو ہمیں بھی واقعات اور حالات کے تقاضا کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک دشمنوں کی مکمل طور پر سرکوبی اور مسلمانوں کے مصائب وآلام میں تخفیف نہیں ہوجاتی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ آپ برابر ایک مہینہ تک نمازکی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اور سجدہ کرنے سے پہلے ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دیگر ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے حق میں نجات کی دعا مانگتے اور کفار کے لئے سخت نِقمت کی جو یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کی صورت میں ہو، التجا کرتے۔ ایک دن آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور قنوت نہ کی۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا:وما تراهم قد قدموا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا کو شرفِ قبولیت بخشا ہے اور وہ سب نجات پاکر مدینہ میں آگئے ہیں ۔“ (صحیح مسلم: رقم:۶۷۵ /صحیح سنن ابوداود:رقم:۱۲۷۹)
موجودہ وقت میں چونکہ ہم اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور سفاک و خونخوار دشمن ہندوستان سے برسرپیکار ہیں نیز ہمارے کشمیری مسلمان بھائی بھی متواتر اٹھارہ سال تک اس کے جوروجفا کی چکی میں پسنے کے بعد اس کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آئے ہیں ۔ اس لئے جہاں ہم دشمن کی سرکوبی کے لئے جہاد بالسیف جیسی دوسری تدابیر اختیار کر رہے ہیں ، وہاں ہمیں قنوتِ نازلہ جیسے مجرب اور بے آواز ہتھیار سے بھی کام لینا چاہئے۔ یادرکھیں یہ وہ ہتھیار ہے جس کا وار کبھی خطا نہیں گیا۔ بارہا ہم نے اس کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے، بس ضرورت یقین اور جذبہ صادق کی ہے!!
[اور یہی صورت ان دنوں افغانستان پر مغربی جارحیت کے حوالے سے مسلمانوں کو درپیش ہے،