کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 51
اَحکام و شرائع شیخ الحدیث مولانا محمداسحق رحمۃ اللہ علیہ قنوت ِ نازلہ کی حقیقت اور اس کا طریقہ نازلۃ مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت دعا کو۔ اس لئے قنوتِ نازلہ کا معنی ہے: مصائب میں گھر جانے اور حوادثِ روزگار میں پھنس جانے کے وقت نماز میں اللہ تعالیٰ سے گریہ زاری والحاح، ان کے ازالہ و دفعیہ کی التجا کرنا اور بہ عجز و انکساری ان سے نجات پانے کے لئے دعائیں مانگنا۔ پھر مصیبتیں کئی قسم کی ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً دنیا کے کسی حصہ میں اہل اسلام کے ساتھ کفار کی جنگ چھڑنا، ان کے ظلم و ستم کا تختہٴ مشق بن جانا، قحط اور خشک سالی میں مبتلا ہونا، وباؤں اور زلزلوں اور طوفانوں کی زد میں آجانا وغیرہ۔ ان سب حالتوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف اُمت کا معمول بھی۔ اس کا مقصد فقط یہی ہے کہ مسلمان اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ خدا سے معانی مانگیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اہل اسلام پر رحم و کرم فرمائے اور ان کو ان مصائب اور تکالیف سے نجات دے۔ قنوتِ نازلہ کا طریقہ طریقہ اِس کا یہ ہے کہ فرض نما زکی آخری رکعت میں رکوع کے بعد اِمام سمع اللّٰه لمن حمده ربنا لک الحمد … الخ پڑھنے کے بعدبلند آواز سے دعاے قنوت پڑھے۔ اس کے ہر جملہ پرسکوت کرے اور مقتدی پیچھے پیچھے بآوازِ بلند آمین کہتے رہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی طریقہ ثابت ہے جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔ کس نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جائے؟ مصیبت اور رنج و الم کی شدت اور ضعف کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بعض نمازوں میں قنوت فرمائی ہے اور کبھی پانچوں نمازوں میں ۔ چنانچہ صحیح مسلم: ص ۲۳۷ میں ہے: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، بخدا ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (عملاً پڑھا کر) تمہارے ذہنوں کے قریب کرنا چاہتا ہوں ۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ ظہر، عشاء اور فجر پڑھائی اور ان میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے: ”يَدْعُوْ لِلْمُوٴمِنِيْنَ وَيَلْعَنُ الْکُفَّارَ“ (مسلم: ۶۷۶) جس میں اہل ایمان کے حق میں رحم و کرم کی دعا مانگتے اور کفار پر لعنت بھیجتے تھے۔ “