کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 50
حالت میں بھول کر کھا پی لیا ہو تو وہ اپنا روزہ پورا کرے یہ تو اللہ تعالیٰ نے اسے کھلایا پلایا ہے۔“ (متفق علیہ) یاد رہے کہ طاقت کا ٹیکہ بھی روزہ توڑنے کا سبب ہے۔
(دیکھئے فتاویٰ شیخ عثیمین، مجالس ۶۶)
(۴) حیض اور نفاس کے خون کا اخراج: حیض اور نفاس کے خون کے اخراج سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے جس طرح پہلے حدیث گزر چکی ہے۔
روزہ دار کے لئے جائز امور
(۱) آنکھوں میں دوا ڈالنا یا سرمہ لگانا : ابوداود میں موجود روایت جس سے یہ مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ روزہ دار کو سرمہ لگانا منع ہے، ضعیف ہے۔ اس کے متعلق یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھذا حدیث منکر ”یہ منکر حدیث ہے۔“
(۲) مسواک کرنا: حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ کئی بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ وہ روزہ کی حالت میں مسواک کررہے تھے۔ (البخاری مع الفتح:۴/۲۰۱)
(۳) حالت ِجنابت میں سحری: حالت ِجنابت میں انسان سحری کھا سکتا ہے، اس کے بعد وہ غسل کرے۔(ترمذی:۱۷۰۲)
(۴) بوس وکنار: جس آدمی کو اپنے نفس پر مکمل کنٹرول ہو اور اس کو حد سے گزرنے کا خطرہ نہ ہو تو وہ اپنی بیوی سے بوس و کنار کرسکتا ہے۔(البخاری: ۱۶۸۴،۱۶۸۷)
(۵) نہانا یا سر پر پانی ڈالنا: روزہ دار کے لئے غسل جائز ہے۔ (البخاری: ۱۹۳۱)
٭ رمضان کے استقبال کیلئے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ (الترمذی:۶۸۴)
ماہِ صیام کے آخری دس دن
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اللہ تعالیٰ لاتعداد لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کردیتے ہیں ۔ ا س لئے انسان کو اگرچہ پورے رمضان میں ہی نیک اعمال کی مکمل سعی کرنا چاہے مگر آخری دس دنوں میں خصوصی طور پر اعمالِ صالحہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اتنی عبادت کرتے تھے کہ اس طرح کسی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔(مسلم:۲۷۸۰) اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کوجاگتے اور عبادتِ الٰہی کے لئے کمر باندھ لیتے اور اہل خانہ کوبھی جگا لیتے تھے۔ (مسلم :۲۷۷۹)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں انتہائی مختصر وقت کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔عنقریب ہی ہم خالق کے حضور کھڑے ہوکر اپنے اعمال کا حساب و کتاب دینے والے ہیں اس لئے ماہِ رمضان کے لئے مناسب تیاری کریں اور پورا مہینہ خاص طور پر آخری دس دنوں میں بھرپور کوشش کرکے مالک ِارض و سما کو خوش کرلیں ۔