کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 46
جھوٹ، غیبت، چغل خوری، ملاوٹ، موسیقی وغیرہ سے مکمل اجتناب کرے۔ مذکورہ محرمات کا ذکر ہم نے اس لئے کیا ہے کہ روزہ دار عام طور پر ان میں ملوث رہتا ہے۔ ورنہ دیگر حرام کاموں سے بھی بچنا ضروری ہے۔
۷) افطار کے وقت دعا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، افطاری پرکی گئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ:۱۷۵۳)
۸) شکرالٰہی: روزہ دار کو چاہئے کہ وہ روزہ رکھنے کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔
روزہ دار کو مندرجہ ذیل امور کا اہتمام کرنا چاہئے
(۱) قرآنِ مجید کی تلاوت: قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ عظیم کتاب ہے انسان کی تمام پریشانیوں کا حل اس کتاب میں موجود ہے اس کے ایک حرف کی تلاوت دس نیکیوں کا باعث ہے۔ لہٰذا رمضان المبارک میں ہمیں زیادہ سے زیادہ تلاوتِ قرآن مجید کا اہتمام کرنا چاہئے۔
تلاوت کی دو قسمیں ہیں
i)تلاوتِ حکمی: یہ ہے کہ انسان قرآن مجید میں دی گئی تمام خبروں کی تصدیق کرے اور قرآنِ مجید کے احکامات کی مکمل پابندی کریں ۔
ii (تلاوتِ لفظی: قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت کرنا۔انسان یہ سوچ کر کتاب اللہ کی تلاوت کرے کہ یہ مالک ِارض و سما کا کلام ہے۔ حضرت ابی اُمامہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قرآن مجید کی تلاوت کیا کرو،قیامت کے روز یہ انسان کی شفاعت کرے گا۔“ (مسلم:۸۰۴)
(۲) صدقہ کرنا: رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے دوران کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ۔ (البخاری:۱۹۰۲)
(۳) ذکرالٰہی: روزہ دار کو کثر ت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے۔ فرمان الٰہی ہے :
”یاد رکھو! دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں ۔“ (الرعد:۲۸)
(۴) قیامِ رمضان: اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پرپانچ نمازیں تو فرض کی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ سنن اور نوافل کے اہتمام کو بھی پسند فرمایا ہے۔ نمازِ تراویح نفلی نماز کی ایک شکل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ تراویح کا اہتمام فرمایا مگر اس خوف سے کہ کہیں یہ میری اُمت پر فرض نہ ہوجائے۔ تین دن کے بعد اس کو ترک کردیا۔ یہ نماز انتہائی فضیلت کی حامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے فرض ہونے کا خوف چونکہ ختم ہوچکا تھا، اس لئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس کے اہتمام کا حکم دیا۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمیم داری اور ابی بن کعب کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ۔
(موٴطا امام مالک: ۲۵۳، صلاة تراویح لشیخ عطیہ سالم:۶،۷)
سلف صالحین ان رکعات کو بہت لمبا کرتے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری اکثر مساجد میں نمازِ تراویح کی ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت اتنی تیزی کے ساتھ کی جاتی ہے کہ اللہ ہی معاف