کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 36
دار الافتاء شیخ الحدیث مفتی حافظ ثناء اللہ مدنی ٭ مسلسل حیض آنے والی عورت؟٭ عورت کی اِمامت اور کہاں کھڑی ہو؟ سوال: ایک عورت کوحیض کا خون تقریباً ایک سال سے جاری ہے اور ا س کو گذشتہ عادت بھی یاد نہیں ۔ وہ مہینہ میں کتنے دن نماز چھوڑے؟ غسل کرے یا صرف وضو کرے؟ ایسے ہی وہ رمضان کے سارے روزے رکھے یا کچھ چھوڑے؟ جس عورت کی عادت اور تمیز مفقود ہو، وہ نماز روزہ کس طرح ادا کرے؟ جواب: ایامِ عادت کے اعتبار سے عورتوں کی متعدد اقسام ہیں : (۱) مستحاضہ : ماہواری کی عادت والی، خون کی پہچان کرسکتی ہو یا نہ کرسکتی ہو۔ اس کو معروف عادت کی طرف لوٹایا جائے گا چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے: امکثی قدر ما کانت تحبسک حيضتک“ ایامِ حیض کے بقدر انتظار کر“ (۲) وہ عورت جو ابتدا ہی میں خون کی پہچان کرے، وہ پہچان کے مطابق عمل کرے گی۔ حدیث میں ہے: ”إذا کان دم الحيضة فإنه أسود يعرف ”جب حیض کا خون آئے تو وہ سیاہ بدبودار ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے۔“ (۳) اور وہ عورت جس کی عادت او رپہچان دونوں مفقود ہوں اس کے ایام ماہواری غالب عورتوں کی عادت کی بنا پر چھ سات دن شمار ہوں گے۔ حدیث ہے ”حضرت حمنہ نے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے توآپ نے فرمایا: ”تو اپنے آپ کو چھ، سات دن تک حائض سمجھ، پھر غسل کراور جب تو اپنے آپ کو پاک صاف سمجھ لے تو ۲۳ یا ۲۴ روز نماز ادا کر، تجھے یہ کافی ہے۔ اور جس طرح حیض وطہر کے اوقات میں کرتی ہیں ، تو ہر ماہ اسی طرح کیا کر“ (عون المعبود:۱/۱۱۷) مسئولہ عورت کا تعلق چونکہ تیسری قسم سے ہے، لہٰذا یہ عورت ہرماہ چھ یا سات دن نماز چھوڑ کر غسل کے بعد نماز پڑھنی شروع کردیا کرے اور جن دنوں میں نماز چھوڑے گی، ان میں روزہ بھی نہیں رکھے گی کیونکہ یہ دن حیض کے شمار ہوں گے۔ ٭کیا عورت نمازِ تراویح پڑھا سکتی ہے؟ جواز کی صورت میں کہاں کھڑی ہو۔ جواب: سنن ابوداود میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث کو حکم دیا تھاکہ ”أن توٴم أهل دارها“ یعنی ” اپنے گھروالوں کی امامت کرائے۔‘‘عون المعبود( ۲/۲۲۰) میں ہے کہ ”اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کی امامت اور ان کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان