کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 35
اور کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا۔ پھر شام کو واپس چلا گیا۔ کسی نے اس واقعہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع کر دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُم عبداللہ کو بلا کر دریافت کیا تو اس نے اس واقعہ کی تصدیق کردی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ جب وہ شخص پھر آئے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب وہ دوبارہ آیا تو اُم عبداللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع کر دی۔ آپ نے اسے بلا کر پوچھا کہ تم نے متعہ کیوں کیا تو وہ کہنے لگا کہ ”میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، دورِ صدیقی اور آپ کے عہد میں بھی متعہ کرتا رہا مگر کسی نے منع نہیں کیا۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
”اللہ کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں آج سے پہلے ممانعت کا حکم نہ دے چکا ہوتا تو تمہیں سنگسار کر دیتا۔ اچھا اب جدائی اختیار کر لو تاکہ نکاح اور سفاح (بدکاری) میں تمیز ہو سکے۔“
یہ واقعہ دراصل مسلم میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی اِجمالی روایت کی تفصیل ہے اور اس واقعہ سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں :
۱۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کی پوری شوریٰ متعہ کی مخالف تھی۔ اگر ان میں بھی اختلاف ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یسا تعزیری حکم نافذ نہ کر سکتے تھے۔
۲۔ جو چند لوگ متعہ کے قائل تھے، وہ بھی چوری چھپے یہ کام کرتے تھے۔ اگر یہ عام ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوہ لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
۳۔ معاشرہ کی اکثریت متعہ کو ناجائز اور مکروہ فعل ہی سمجھتی تھی۔ اگر یہ رسم عام ہوتی تو اس شامی کو ایسی عورت کا پتہ پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے یہ معاملہ اُم عبداللہ سے کیوں نہ طے کر لیا جس کے ہاں وہ ٹھہرا تھا۔
اس تعزیری قانون کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما اور آپ کے شاگردوں مثلاً عطاء بن ابی رباح، طاوس، سعید بن جبیر اور ابن جریج کے لیے اس کے بغیر چارہ نہ رہا کہ وہ متعہ کے لیے عقلی دلیل مہیا کر کے اپنے دل کا غبار نکال لیں ۔ اور وہ دلیل عقلی یہ تھی جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ
”متعہ کا جائز ہونا اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اگر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ممانعت نہ کر دی ہوتی تو کبھی کسی کو زنا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔“ (تفسیر مظہری: ص ۲۰۸)
پھر جب دورِ عثمانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قراء ت إلیٰ اَجَلٍ مُّسَمّیٰ کو خبر متواتر نہ ہونے کی وجہ سے شرفِ قبولیت حاصل نہ ہو سکا اور یہ اَلفاظ کتاب اللہ میں شامل نہ ہو سکے تو متعہ کا فائدہ بتلانے کا میلان بھی ختم ہو گیا۔ اور بالآخر آپ نے اپنے اس فتویٰ رخصت سے بھی رجوع کر لیا (تفسیر حقانی : ۲ / ۱۴۵)