کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 34
یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے (اور ممکن ہے کہ جن ایام میں متعہ کا جواز تھا، یہ قراء ت بھی پڑھی گئی ہو۔ لیکن ایسی قراء ت بھی رخصت اور نسخ کے ضمن میں آتی ہیں ) مگر آپ کی اس بات کو دو وجوہ کی بنا پر پذیرائی نہ ہو سکی۔ ایک یہ کہ جمع و تدوین قرآن کے معاملہ میں خبر متواتر کو قبول کیا گیا تھا اور آپ کی یہ خبر واحد تھی جس کا دوسرا کوئی راوی نہ تھا۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ پہلے سے دو مکی سورتوں موٴمنون اور معارج میں یہ محکم آیات موجود تھیں :
﴿وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ اِلاَّ عَلیٰ اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ فَمَنِ ابْتَغیٰ وَرَاءَ ذٰلِکَ فَاوْلٰئِکَ هُمُ العَادُوْنَ ﴾
(۲۳ : ۵ تا ۷ اور ۷۰ : ۲۹ تا ۳۱)
یعنی حفاظت ِفروج کے دو ہی ذریعے ہیں ایک بیوی ، دوسرا لونڈی۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حد سے گزرنا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ممتوعہ عورت نہ بیوی ہوتی ہے نہ لونڈی۔ لونڈی نہ ہونے میں تو کوئی کلام نہیں اور بیوی اس لیے نہیں ہوتی کہ بیوی کو میراث ملتی ہے اور ایسی عورت کو میراث نہیں ملتی۔
(۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی متعہ کے معاملہ میں صرف نرم گوشہ رکھتے تھے، آپ کو اصرار قطعاً نہ تھا۔ جبکہ کثیر تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم متعہ کو حرام قرار دینے میں شدت اختیار کرتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ٹوکتے بھی تھے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ (مسلم: حوالہ ایضاً) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور جب یہ جوازِ متعہ کی بات کرتے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کرنے کے ساتھ ان کے دلوں کو بھی اندھا کر دیا ہے جو متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں ۔ اس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما خلیفہ تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ تم زیادتی کر رہے ہو، میری عمر کی قسم! دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں متعہ ہوتا رہا ہے۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس متعہ کو اپنے آپ پر آزماؤ۔ خدا کی قسم! اگر تو ایسا کرے تو میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کر دوں ۔ (مسلم، حوالہ ایضاً)
(۳) معلوم ایسا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری ابدی حرمت کا اعلان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک نہ پہنچ سکا جو کہ دور دراز علاقوں تک پہنچ چکے تھے۔ یا یہ حضرت ابن عباس کی لچک کا اثر تھا کہ دورِ صدیقی اور دورِ فاروقی کی ابتدا تک درپردہ متعہ کے کچھ واقعات کا سراغ ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چونکہ متعہ کے شدید مخالف تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم س ٹوہ میں رہتے تھے کہ ایسا کوئی واقعہ سامنے آئے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص شام سے آیا اور اس نے اُم عبداللہ ابی فتیحہ کے ہاں قیام کیا اور اسے کہا کہ میرے متعہ کے لیے کوئی عورت تلاش کرو۔ ام عبداللہ نے ایک عورت کا پتہ بتلایا تو اس آدمی نے اس سے متعہ کیا