کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 33
کرواتے تھے مگر جنگ کے خاتمہ پر اس کی حرمت کا اعلان خود فرماتے تھے۔ چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی ہمارے پاس آیا اور پکار کر کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی ہے۔ (حوالہ ایضاً)
۴۔ ربیع بن سمرہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ سو اگر کسی کے پاس ایسی عورت ہو تو وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔
(حوالہ ایضاً)
متعہ کی حرمت کا یہ اعلان حجة الوداع ۱۰ھ میں ہوا تھا جیسا کہ اس دن سود اور جاہلیت کے خون کی بھی اَبدی حرمت کا اعلان ہوا تھا۔
۵۔ ایاس بن سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر مرد اور عورت متعہ کی مدت مقرر نہ کریں تو تین دن رات مل کر رہیں ۔ پھر اگر چاہیں تو مدت بڑھا لیں اور چاہیں تو جدا ہو جائیں ۔ (بخاری: کتاب النکاح، باب نهی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عن نکاح المتعة أخيرا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاحِ متعہ کی صورت ایسی نہ تھی جیسے کہ آج کل کے قحبہ خانوں میں ہوا کرتی ہے کہ ایک بار کی مجامعت کی اُجرت طے کر لی جاتی ہے بلکہ اس کی کم سے کم مدت تین دن ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔یہ تین دن کی مدت بھی صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے مقرر کی گئی تھی۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق اسے منسوخ کردیا گیا۔
۶۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو متعہ کے قائل تھے، وہ بھی صرف اضطراری حالت میں اس کی رخصت کے قائل تھے عام حالات میں نہیں ۔ چنانچہ ابن جمرہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ عورتوں سے متعہ کرنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس کی رخصت ہے۔ اس پر ان کا ایک غلام (عکرمہ) کہنے لگا، متعہ اس حالت میں جائز ہے جب مردوں کو سخت ضرورت ہو یا عورتوں کی کمی ہو یا کچھ ایسا ہی اضطراری معاملہ ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں ! (بخاری: ایضاً)
ہم یہاں تمام روایات تو درج نہیں کر سکتے کیونکہ اخذ ِنتائج کے لیے یہ بھی کافی ہیں اور وہ نتائج درج ذیل ہیں :
(۱) إلیٰ أجل مسمیٰ کی قراء ت کے راوی صرف عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جن کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صرف ۱۳ سال تھی۔ جمع و تدوین قرآن کے وقت آپ قسم اٹھا کر کہتے ہی رہے کہ