کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 30
(۲) سورة النساء: آیت نمبر۲۴ ﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾ نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی (حرام ہیں ) مگر وہ کنیزیں جو تمہارے قبضہ میں آجائیں ۔ تمہارے لیے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں ، انہیں اپنے مال کے ذریعہ حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو … [۴۰] موجودہ دور کے مہذب معاشرہ میں فاتح قوم قیدی عورتوں سے جس طرح کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتی ہے، اسلامی نقطہ نظر سے یہ صریح زنا ہے اور جس طرح آج کل قیدی عورتوں کو ایک کیمپ میں رکھا جاتا ہے اور فوجیوں کو عام اجازت دی جاتی ہے کہ جس عورت سے چاہیں ، زنا کرتے رہیں ۔ یہ صرف زنا ہی نہیں رہتا بلکہ ایک وحشیانہ فعل بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع پر چند در چند پابندیاں لگائی ہیں ۔ اس سلسلے میں پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : ”ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ایک لشکر اَوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (النساء : ۳۴) نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کر دیا۔ (مسلم : کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیہ) اس آیت اور مندرجہ بالا حدیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے : ۱۔ صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اَموالِ غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اَموالِ غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔