کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 3
عوام کو نقصان سے بچایا جائے اورامریکی فوج کو آنے کا موقع دیا جاسکے۔ طالبان کے حوصلے بلند ہیں ، خون کے آخری قطرے تک جہاد جاری رہے گا۔ پاکستانی بھائی پریشان ہونے کی بجائے دعا کریں ۔“ (روزنامہ انصاف: ۱۴/ نومبر)
دینی حمیت سے معمور کالم نگار جناب ہارون الرشید لکھتے ہیں :
”طالبان کی واپسی دراصل سوچی سمجھی پسپائی ہے۔ اگر وہ موجود رہتے، ڈٹے اور لڑتے رہتے تو انہیں کس قدر شدید اسلحی، جانی او رمالی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا؟ پھر جو اقدام چند ہفتے بعد کرنا تھا، وہ ابھی کیوں نہ کیا جاتا؟ یہ شکست کی نہیں ، ذہنی بلاغت اور حوصلہ مندی کی دلیل ہے۔“ (روزنامہ خبریں :۱۵/ نومبر)
روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر حامدمیر جنہیں دعویٰ ہے کہ وہ حال ہی میں اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرکے آئے ہیں ، کہتے ہیں :
”گوریلا جنگ بڑے شہروں میں نہیں ، بلکہ پہاڑوں اور جنگلوں میں لڑی جاتی ہے۔ طالبان نے گوریلا جنگ کے لئے بڑے شہر خالی کئے کیونکہ ان شہروں پر قبضہ قائم رکھنے سے ان کا نہیں بلکہ سول آبادی کا نقصان ہورہا تھا۔“ (روزنامہ اوصاف: ۱۵ /نومبر)
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل صاحب کے خیال میں
” کابل پر قبضہ بظاہر طالبان کی ناکامی ہے، مگر انہوں نے حکمت ِعملی تبدیل کرلی۔ شمالی اتحاد کے لئے مشکلات بڑھیں گی، یہی طالبان کی کامیابی ہے۔“
(نوائے وقت: ۱۴/ نومبر)
دفاعِ پاکستان و افغان کو نسل کے راہنماؤں کا مشترکہ بیان شائع ہوا ہے کہ طالبان نے اقتدار کی قربانی دے کر اپنے عوام کو بچا لیا۔( نوائے وقت: ۱۵/ نومبر)
تادمِ تحریر (۲۰/ نومبر) طالبان اس جزوی شکست یاتزویراتی پسپائی کے باوجود ابھی تک مکمل تباہی سے دوچار نہیں ہوئے۔ خود امریکی قیادت بار بار واویلا کر رہی ہے کہ جب تک طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں کرلیا جاتا، ان کی طرف سے جوابی کارروائی کا خطرہ بدستور باقی رہے گا۔ طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد نے سقوطِ کابل کے فوراً بعد اپنے تحریری بیان میں طالبان کو ہدایت جاری کی کہ
”وہ خود کو از سر نو منظم کریں اور جنگ کی تیاری کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں ۔ میرا حکم ہے کہ وہ اپنے کمانڈروں کے اَحکامات مانتے ہوئے طویل جنگ کی تیاری کریں ۔ان شاء اللہ آخری فتح حق و صداقت کی ہوگی اور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ شامل ہے۔“ (نوائے وقت: ۱۴/ نومبر)
حزبِ اسلامی کے سربراہ جناب گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ
”موجودہ افغان جنگ کا نتیجہ ابھی دور ہے۔ انہوں نے ایک روسی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا