کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 29
جب حق مہر کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ حق مہر شرعی باندھ دیجئے اور شرعی حق مہر سے ان کی مراد ۳۲ روپے ہوتی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حساب کسی عالم نے اس دور میں لگایا ہوگا جب متحدہ ہندوستان میں ایک روپے کا چار سیر دیسی گھی مل جاتا تھا۔ ملازمین کی تنخواہ ۲ روپے ماہوار سے لے کر ۴ روپے تک ہوتی تھی اور سونے کا بھاؤ تقریباً پانچ روپے تولہ ہوتا تھا یعنی اس وقت بھی ۳۲ روپے کا چھ سات تولے سونا آ جاتا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہوئی کہ روپے کی قیمت تو ہزار گنا گر چکی ہے مگر ۳۲ روپے لوگوں کو اسی زمانہ کے یاد ہیں ۔ یہ لوگ تو تفریط کی طرف چلے گئے۔
دوسرا گروہ ایسا ہے کہ جو شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ حق مہر کا مطالبہ کر دیتے ہیں ۔ مثلاً شوہر کی حیثیت دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن وہ مطالبہ ایک لاکھ کا کر دیتے ہیں اور زبانی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم لینی دینی کس نے ہے۔ ہماری غرض تو صرف یہ ہے کہ نکاح نامہ میں اندراج ہو جائے اور اس بھری مجلس میں ذرا ہماری شان بن جائے۔ باقی نکاح کے بعد میاں بیوی اکٹھے ہوں گے تو ہماری لڑکی یہ رقم بخش دے گی۔ یہ لوگ اِفراط کی طرف جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ شریعت میں ایسی حیلہ سازیوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔ حق مہر لڑکی کی طرف سے معاف کروانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔ ہاں اگر وہ کسی کے دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے حق مہر سارا یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اور بات ہے۔
پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو حقیقتاً فروخت کرتے ہیں ۔ وہ حق مہر کی کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور وصول کر کے یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ خود کھاتے ہیں اور جب تک انہیں اپنی حسب ِپسند رقم نہ ملے، وہ لڑکیوں کا نکاح ہی نہیں کرتے خواہ وہ بوڑھی ہونے لگیں ۔ ایسے لوگ چند در چند کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ حق مہر کی رقم لڑکی کا حق ہوتا ہے، اس کے والدین کا نہیں اور اس پر دلیل نکاح شغار کی ممانعت ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے اور نکاحِ شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو اس شرط پر دوسرے شخص سے بیاہ دیتا تھا کہ وہ دوسرا اسے اپنی بیٹی بیاہ دے اور حق مہر کسی کو بھی نہ دینا پڑے۔“ (مسلم: کتاب النکاح ،باب تحريم نکاح الشغار و بطلانه)
یعنی ہر لڑکی کا ولی یا باپ حق مہر کا ذکر تک اس لیے نہ کرتا تھا کہ وہ اسے ادا کرنا پڑتا تھا اس طرح وہ حق مہر سے لڑکیوں کو محروم کر کے یہ رقم خود ہضم کر جاتے تھے۔
پھر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر عورت حق مہر کی رقم معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح سے دکھ پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور اس دکھ پہنچانے کی بھی بہت سی صورتیں ہیں ۔ ایسی سب باتیں حرام اور گناہ ہیں ۔ راہِ صواب یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہوا ہو، وہ بیویوں کو بخوشی ادا کر دیا جائے۔