کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 28
اب اسی سے متعلق ایک تیسری روایت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے یہ خطاب فرما رہے تھے تو ایک عورت پکار اٹھی (کیونکہ یہ بات عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتی تھی) کہ ”تم یہ کیسے پابندی لگا سکتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:﴿وَاِنْ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰهُنَّ قِنْطَارًا﴾ “ (۴ :۲) ”یعنی اگرچہ تم اپنی کسی بیوی کو خزانہ بھر بھی بطورِ حق مہر دے چکے ہو“ عورت کی یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے ساختہ پکار اٹھے۔ ”پروردگار! مجھے معاف فرما، یہاں تو ہر شخص عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقیہ ہے۔“ پھر منبر پر چڑھے اور کہا ”لوگو! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ حق مہر باندھنے سے روکا تھا۔ میں اپنی رائے واپس لیتا ہوں ۔ تم میں سے جو جتنا چاہے، مہر میں دے۔“ ان احادیث کے علاوہ ایک اور متفق علیہ حدیث ہمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے متعلق ملتی ہے کہ انہوں نے ایک کھجور کی گٹھلی بھر سونا حق مہر کے عوض ایک انصاری عورت سے نکاح کیا تھا لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ گٹھلی کتنی بڑی یا چھوٹی تھی اور اس کا وزن کتنا تھا۔ سونا چونکہ سب سے وزنی دھات ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ وہ بھی چھ سات تولے سونے کے لگ بھگ ہوگی۔ اور کم سے کم حق مہر کے متعلق بھی ایک حدیث تقریباً سب کتب ِحدیث میں موجود ہے کہ ”ایک عورت نے اپنا نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص بول اٹھا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ نہیں چاہتے تو اس عورت کا مجھ سے نکاح کر دیجئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تمہارے پاس حق مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ وہ کہنے لگا: کچھ نہیں ماسوائے اس چادر کے جو میں نے لپیٹ رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چادر تم رکھو گے یا اسے دو گے؟ جاؤ کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ڈھونڈ لاؤ۔ وہ گیا لیکن اسے وہ بھی نہ ملی اور واپس آ گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کچھ قرآن یاد ہے؟ کہنے لگا: ہاں ! فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا وہی سورتیں اس کو (بطورِ حق مہر) زبانی یاد کرا دینا۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر ہو سکتی ہے۔ اس حدیث سے بعض فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ حق مہر کی کم از کم حد رُبع دینار یا پانچ درہم ہے اور بعض یہ حد نصف دینار یا دس درہم قرار دیتے ہیں ۔ ان تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے جس پر فریقین راضی اور مطمئن ہوں اور آج کل پاکستانی کرنسی کے حساب سے اس کا درمیانی سا معیار تیس ہزار روپے ہے۔ اس تحقیق کے بعد اب اپنے ہاں کے رواج کی طرف آئیے کہ اس معاملہ میں بھی لوگ کس طرح اِفراط و تفریط کا شکار ہیں ۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو شادی پر تو لاکھوں کے حساب سے خرچ کر دیتے ہیں مگر