کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 27
کہ ان کے حق مہر انہیں برضا و رغبت پورے کے پورے ادا کر دیئے جائیں ۔ ہاں اگر وہ از خود بلاجبر واِکراہ اپنی خوشی سے یہ حق مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں تو وہ تمہارے لیے حلال اور طیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سے ہرگز کام نہ لیا جائے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہمیں سنت ِنبوی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ ”بارہ اوقیہ چاندی اور نش“ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے پوچھا، جانتے ہو ’نش‘ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔ تو کہنے لگیں : نش سے مراد نصف ہے اور یہ کل ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی یا پانچ سو درہم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کے لیے یہی حق مہر تھا۔“ (مسلم: کتاب النکاح، باب الصداق)
اسی سلسلہ میں دوسری روایت اس طرح ہے کہ ابو العجفاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ کے دوران لوگوں سے فرمایا کہ ”دیکھو! عورتوں کے حق مہر بڑھ چڑھ کر نہ باندھا کرو، کیونکہ اگر مہر بڑھانا دنیا میں کوئی عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا یا اپنی کسی بیٹی کا حق مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ باندھا ہو۔“ (ترمذی: ابواب النکاح، باب ماجاء فی مهور النساء)
ہم ان دونوں روایات میں سے مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے مطابق ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ = ۴۰ درہم) یا ۵۰۰ درہم والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ درہم چاندی کا ایک سکہ تھا۔ جس کا وزن ۲/۱ ۔۴ ماشہ چاندی تھا۔ اس حساب سے یہ ۵۰۰ x ۲/۹x ۱۲/۱= ۲/۳۷۵=۲/۱۔۱۸۷ تولے چاندی ہوئی اور اگر موجودہ حساب سے ۱۵۰ روپیہ فی تولہ فرض کیا جائے تو یہ آج کل /=۲۸۱۲۵ روپے پاکستانی بنتے ہیں ۔
اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ ۲۰ درہم= ایک دینار۔ اور دینار ۲/۱۔۳ ماشہ سونے کا سکہ تھا۔ اس لحاظ سے یہ ۲۰/۵۰۰= ۲۵ دینار ہوئے۔ جن کا وزن ۲۵ x ۲۴/۷ تولے بنتا ہے اور اگر ایک تولہ سونا کا نرخ ۴۵۰۰ روپے فی تولہ لگایا جاے تو یہ /=۳۲۸۱۲ روپے پاکستانی بنتے ہیں اور اگر ان دونوں رقموں کا اوسط نکالا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا پاکستان کی موجودہ کرنسی کے حساب سے تیس ہزار روپے حق مہر مقرر کیا تھا اور یہ وہ رقم ہے جس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ لوگو! اس سے زیادہ حق مہر نہ باندھا کرو۔