کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 26
مادّہ خارج ہو جاتا ہے اور یہ جنسی بھوک از خود کم ہوتی رہتی ہے۔
۲۔ جنسی بھوک کو کم خوری اور روزہ رکھنے سے بھی کم کیا جا سکتا ہے لیکن غذائی بھوک کا شکم پروری کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا۔
۳۔ غذائی بھوک از خود پیدا ہوتی ہے جبکہ جنسی بھوک کو بہت حد تک خود پیدا کیا جاتا ہے۔ آپ خود کو شہوانی خیالات اور ماحول سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ شہوانی جذبات کے ماحول میں مستغرق رہنے کے بجائے دوسرے مفید کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے تو یہ جنسی بھوک بیدار ہی نہ ہوگی۔ اور اگر شہوانی خیالات اور ماحول میں مستغرق رہیں گے، فحش قسم کا لٹریچر اور ناول پڑھیں گے،سینیما اور ٹیلی ویژن پر رقص و سرود کے پروگرام دیکھیں گے، زہد شکن قسم کے گانے سنیں گے اور جنسی جذبات کو ہیجان میں رکھنے والے ماحول میں رہیں گے تو یہ جنسی بھوک اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ گویا اس جنسی بھوک کو پیدا کرنا نہ کرنا، اعتدال پر رکھنا اور پروان چڑھانا بہت حد تک انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ غذائی بھوک پر کنٹرول انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا․
ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کیا یہ بات کافی نہیں کہ آج کے معاشرہ میں بھی آپ کو ایسے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور عفیف بچے کافی تعداد میں مل سکتے ہیں جن کی بیس پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی بے داغ ہوتی ہے۔ حالانکہ جنسی جذبات دس گیارہ سال کی عمر کے بعد بیدار ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔
اور تیسرا راستہ دونوں کے درمیان اعتدال کا ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے کہ شہوانی جذبہ چونکہ فطری جذبہ ہے لہٰذا اِسے روکنا غیر فطری بات ہے۔ تاہم اسے ایسا بے لگام بھی نہیں چھوڑا گیا جس سے معاشرتی بنیادوں کے انجر پنجر ہی ہل جائیں بلکہ اسے نکاح کی شرائط سے پابند بنا دیا گیا ہے۔ اور یہ بات تو ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ شہوانی ہیجان مرد میں اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ لہٰذا فحاشی اور بے حیائی سے اجتناب کے لیے تعدد ِازواج ضروری تھا اور یہی راستہ فطری اور اسلامی ہے اور اسی راستہ کو اکثر انبیاءِ کرام علیہم السلام نے اختیار کیا ہے جو مختلف اَدوار میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں ۔ اور اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید بھی ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اصل حکم صرف ایک عورت سے نکاح کا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ معاشرہ کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے لہٰذا اگر اسلام یک زوجگی کا قائل ہوتا تو اس کے متعلق نہایت واضح اور صریح حکم کا آنا لابدی تھا اس لیے کہ عرب میں تعدد ازواج کا رواج اس قدر زیادہ تھا کہ اسلام کو اس میں تحدید کرنا پڑی۔
[۷] یتیم لڑکیوں اور ان کے حق مہر کا بیان شروع ہوا تو عام عورتوں کے حق مہر کے متعلق بھی تاکید فرما دی