کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 25
اب اس مسئلہ پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے۔ اس حقیقت سے تو سب لوگ آشنا ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو۔ اور اگر اس جذبہ شہوانی کو طویل مدت تک دبائے رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں : پہلا یہ کہ اس جذبہ کو مختلف تدبیروں سے دبا دیا جائے۔ خواہ یہ خصی ہونے سے ہو یا انتہائی قلیل خوری سے۔ جیسا کہ جوگی، سادھو یا رُہبان قسم کے لوگ کرتے ہیں ۔ اس طریق کے غیر فطری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان نسل انسانی کا انقطاع ہے اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فحاشی چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اس قسم کے لوگ تقدس کے پردوں میں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ عیسائی مذہب میں اس کا رواج عام تھا۔ ایسے درویش قسم کے مرد اور عورتیں جو ساری عمر جنسی جھمیلوں سے آزاد رہ کر کلیسا کی خدمت کے لیے مامور ہوتے تھے، ان میں خفیہ طور پر حرام کاری کا وسیع سلسلہ پایا جاتا تھا اور حرامی بچوں کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات پر آج بھی ثبت ہیں ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوانی خواہشات کو بلاجھجک کھلے بندوں پورا کیا جائے۔ اہل مغرب کے ادیب قسم کے لوگوں نے نکاح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس مہم پر صرف کیا اور بالآخر وہ ایسی فحاشی کو عام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان لوگوں کا طرزِ استدلال یہ تھا کہ انسان کی تین ضرورتیں لابدی ہیں : بھوک، نیند اور جنسی ملاپ۔ ان کو اگر پورا نہ کیا جائے تو انسان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند تو بہرحال اپنا حق وصول کر ہی لیتی ہے۔ بھوک کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ بھوک کے وقت گھر پر نہیں تو بازار سے، ہوٹل سے، عزیز و اقارب سے، جہاں بھی وہ ہو اپنی یہ ضرورت پوری کر ہی لیتا ہے اور اس کے لیے وہ محض اپنے گھر کا محتاج نہیں ہوتا۔ تو جیسی ضرورت غذائی بھوک کی ہے ویسی ہی جنسی بھوک کی بھی ہے لہٰذا صرف اپنی بیوی سے ہی ملاپ کا تصور غیر فطری ہے۔ نیز اگر کسی کو بیوی بھی میسر نہ آ سکے تو وہ کیا کرے؟ اس استدلال میں غذائی بھوک اور جنسی بھوک کو ایک ہی سطح پر رکھ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ بات اُصولی طور پر غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ۱۔ غذائی بھوک کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ پیٹ کا تنور غذا سے پر کیا جائے لیکن جنسی بھوک کا علاج فطرت نے از خود کر دیا ہے۔ جب انسان میں مادہ منویہ زیادہ ہو جائے تو بذریعہ احتلام یہ