کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 23
اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ لہٰذا شرعی لحاظ سے نہ پاکستان کے رواج کو مورد ِالزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ عرب کے رواج کو۔ ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد: فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد: مادّیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار ِزندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کر سکتا، لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سِفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے، اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔ اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اور اسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جا سکتی ہے؟ اسی مغربی تخیل سے اور بعض ’مہذب خواتین‘ کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس ۱۹۶۱ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس آرڈیننس کی شق نمبر ۲۱ اور ۲۲ سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاحِ ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کر دیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت یہ گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کے گھر میں اس کی سوکن آ جائے۔ اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے، انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کر دیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کر لی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا، وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔