کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 22
خیر اس بات کو بھی جانے دیجئے ،ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ پرویز صاحب بجا فرما رہے ہیں تو اس کے مطابق صرف جنگ ِاُحد ہی ایسی جنگ قرار دی جا سکتی ہے جو پرویز صاحب کے نظریہ کا مصداق بن سکے کیونکہ اس میں ستر مسلمان شہید ہو گئے تھے۔ دوسری کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور منافقین کو بھی مسلمانوں میں شامل سمجھا جائے تو ایک ہزار تھی۔ اور یہ وہ تعداد تھی جو میدانِ جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ورنہ سب مسلمانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اور ان میں سے ستر مسلمانوں کے شہید ہونے سے ستر عورتیں بیوہ ہوگئیں (کیونکہ پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے)۔ اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں … اس تعداد کو چار گنا کر دیجئے … یعنی تقریباً ۳۰۰ عورتوں کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا لہٰذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کر لینے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آ سکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی؟ اور یہ اجتماعی فیصلہ والی بات بھی عجیب قسم کی دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ﴾یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں ، اس سے نکاح کر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں ۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت، جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح کو مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کر لینے کا دیا ہے۔ البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے۔ تعدد ِازواج اجازت ہے، حکم نہیں ۔ اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تاقیامت دستور ِحیات ہے۔ لہٰذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔ مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں ۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے، لہٰذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کر لے تو بے شمار پریشان کن مسائل اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی ۹۵ فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے۔ لہٰذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر وہاں طلاق کو بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے۔ لہٰذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی