کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 21
اور دوسری تلخ مزاج یا بدمزاج ہے۔ یا ایک ذہین و فطین ہے اور دوسری بالکل جاہل اور کند ذہن ہے۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ اگرچہ ان صفات میں بیوی کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا، تاہم یہ باتیں خاوند کے لیے میلان یا عدمِ میلان کا سبب ضرور بن جاتی ہیں ۔ اور یہ فطری اَمر ہے، اسی قسم کی ناانصافی کا یہاں ذکر ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے میلان یا عدم میلان میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا لہٰذا ایسے اُمور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت اور موٴاخذہ نہیں ۔ خاوند سے انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں ۔ جیسے نان و نفقہ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلہ میں باری مقرر کرنا وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت تھی اور اس کی وجوہ یہ تھیں کہ آپ کنواری تھیں ، نو عمر تھیں ، ذہین و فطین اور خوش شکل تھیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ ”یا اللہ ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے، ان میں سب بیویوں سے میں یکساں سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔“ تفریط کی طرف جانے والے لوگ دراصل تہذیب ِمغرب سے سخت مرعوب ہیں جن کے ہاں صرف ایک ہی بیوی کی اجازت ہے۔ آج کل اس طبقہ کی نمائندگی غلام احمد پرویز صاحب فرما رہے ہیں ۔ انہوں نے اس آیت میں ’یتامی‘ کا لفظ دیکھ کر تعددِ ازواج کی اجازت کو ہنگامی حالات اور جنگ سے متعلق کر دیا چنانچہ ’طاہرہ کے نام خطوط‘ کے صفحہ ۳۱۵ پر فرماتے ہیں : ”مطلب صاف ہے کہ اگر کسی ہنگامی حالت مثلاً جنگ کے بعد جب جوان مرد بڑی تعداد میں ضائع ہو چکے ہوں اور ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ معاشرہ میں یتیم بچے اور لاوارث جوان عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ اس ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں عارضی طور پر لچک پیدا کر لی جائے۔“ پھر آگے چل کر﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنیٰ وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ﴾ کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ ”ان میں سے ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کر لو۔ اس طرح انہیں (اور بیواؤں کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی) خاندان کے اندر جذب کر لو۔ یہی ان سے منصفانہ سلوک ہے۔ یہ مسئلہ اگر دو دو بیویاں کرنے سے حل ہو جائے تو دو دو کر لو اور اگر تین تین سے ہو تو تین تین اور چار چار سے ہو تو چار چار … یہ تو رہا اجتماعی فیصلہ“ (طاہرہ کے نام خطوط :ص ۳۱۶) اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات اور جنگ کی قید آ کہاں سے گئی؟ کیا ہنگامی حالات یا جنگ کے بغیر کسی معاشرہ میں یتیموں کا وجود ناممکن ہے؟ یا قرآن کے کسی لفظ سے ہنگامی حالات یا جنگ کا اشارہ تک بھی ملتا ہے؟