کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 20
عورتیں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :”ان میں سے کوئی سی چار پسند کر لو (باقی چھوڑ دو)۔‘‘ (ابن ماجہ: کتاب النکاح، باب الرجل يسلم و عندہ أکثر من أربع نسوة) ۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام قرعہ نکلتا، اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات مقرر کرتے تھے۔“ (بخاری: کتاب الهبه، باب هبة المرأة لغير زوجها) البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بالکل الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواجِ مطہرات اُمت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی تھیں ، لہٰذا جتنے نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کر چکے تھے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال اور جائز قرار دیئے گئے۔( اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلام میں تعدد ِاَزواج کی کوئی حد نہیں اور قرآن میں جو دو دو تین تین، چار چار کے الفاظ آئے ہیں ، یہ بطور محاورہ زبان ہیں یعنی دو دو کی بھی اجازت ہے، تین تین کی بھی اور چار چار کی بھی، اور اسی طرح پانچ پانچ اور چھ چھ کی بھی فصاعداً۔ یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے: ایک یہ کہ اگر اجازت ِعام ہی مقصود ہوتی تو صرف ﴿مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النَّسَاءِ﴾ کہہ دینا ہی کافی تھا۔ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد کی تعیین کر دی تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ جیسا کہ اوپر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو وہ تھے جو اِفراط کی طرف گئے اور کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے کہ عام اُصول یہی ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اگر تمہیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔“ پھر اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۲۹ میں فرمایا کہ ”اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرو تو تم ایسا نہ کر سکو گے۔“ گویا آیت نمبر ۳ میں تعددِ ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی وہ اس آیت کی رو سے یکسر ختم کر دی گئی۔ لہٰذا اصل یہی ہے کہ بیوی ایک ہی ہونی چاہئے۔ یہ استدلال اس لحاظ سے غلط ہے کہ اسی سورت کی آیت ۱۲۹ میں آگے یوں مذکور ہے ”لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو۔“ اور جن باتوں کی طرف عدمِ انصاف کا اشارہ ہے وہ یہ ہیں کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے، دوسری بوڑھی ہے۔ یا ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت یا قبول صورت ہے۔ یا ایک کنواری ہے دوسری ثیب (شوہر دیدہ) ہے۔ یا ایک خوش مزاج ہے
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعددِ ازواج کی حکمتوں اوراس پر شبہات واعتراضات کے لئے دیکھیں محدث نومبر۲۰۰۰ء