کتاب: محدث شمارہ 255 - صفحہ 10
” ایک بات جو اب بالکل عیاں ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ کوافغانستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے پاکستان کی مزید ضرورت نہیں رہی۔پاکستان کوامریکہ کا بیس کیمپ ہونے کی حیثیت سے جواہمیت حاصل تھی، اب باقی نہیں رہی۔اب امریکی افغانستان کے اندر طالبان پر حملے کرنے اور اسامہ بن لادن کوپکڑنے کے لیے مقبوضہ شہروں میں کسی ایک کواستعمال میں لا سکتے ہیں ۔بد قسمتی سے پاکستان امریکہ کی طویل المیعاد دوستی کے وعدوں کی آزمائش میں بہت جلد مبتلا ہو گیا ہے، ابھی تو اسے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔“ (۱۴/ نومبر) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا ” طالبان کے کابل خالی کرنے کے اقدام نے افغانستان میں سیاسی اور فوجی خلا پیدا کر دیا ہے اور یہ امریکی حکومت کی پالیسی کی مکمل ناکامی کوظاہر کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب افغانستان میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں رہا۔“ (دی نیشن: ۱۴/نومبر) (۲) ۱۱/ ستمبر کے سانحہ کے بعدحکومت ِپاکستان نے اعصاب شکن امریکی دباوٴ کے زیر اثر افغانستان کے متعلق خارجہ پالیسی میں ’یوٹرن‘ لیا تھا ، آج ہر پاکستانی اس کے مزعومہ فوائد کے متعلق سوال کر رہا ہے کہ بے گناہ افغان پر وحشیانہ بمباری میں تعاون کر کے آخر پاکستان نے کیا حاصل کیا ہے؟ ہمیں کیاکیا تزویراتی، اخلاقی اور معاشی فائدے میسر آئے ہیں ؟ ہمارے دانشور مسلسل ان سوالات کے جواب طلب کر رہے ہیں ۔معروف کالم نگار جناب عباس اطہر کہتے ہیں ”روس اور بھارت عملی طور پر ہمارے عقب میں پہنچ چکے ہیں اور اپنی قیادت سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے:”اپنے ہاتھ کیا آیا؟“ فرنٹ لائن سٹیٹ کاسٹیٹس، ایک ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ،کچھ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور امریکہ کی طرف سے عمر بھر ساتھ نبھانے کا ’قلمی عہد‘ (نوائے وقت:۱۵/نومبر) جناب ہارون الرشید پوچھتے ہیں : ”پاکستان کو اس جنگ سے کیا حاصل ہوا؟ دیکھنے والے دیکھیں گے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ بند کر دیا جائے گا اور مدتوں بند رہے گا۔افغان دار ا لحکومت میں بھارتی سفارت خانہ آباد ہوجائے گا۔ہرات اور قندھار میں ا ن کے قونصل خانے کھلیں گے او رطور خم کی سرحد کے پار آپ بھارتیوں کو مٹر گشت کرتے پائیں گے کہ شمالی اتحاد والوں کے ساتھ بھارتیوں کے مثالی مراسم ہیں ۔ (کالم نا تمام… روزنامہ خبریں :۱۵/نومبر) روزنامہ ’اوصاف‘ کے ایڈیٹر حامد میر بھی استفسار کرتے ہیں ”کوئی بتائے گا کہ طالبان کے بارے میں پالیسی تبدیل کر کے پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحدیں غیر محفوظ بنانے کے سوا کیا ملا؟ صرف ایک ارب ڈالر میں یہ سودا بہت مہنگا ہے۔“ (۱۵/نومبر)