کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 9
الصِّيَام اِلٰی اللَّيْلَ﴾ (البقرة: ۱۸۷) ”کھاؤ پیو یہاں تک کہ رات کے تاریک خط سے صبح کا سپید خط ممتاز ہوجائے۔ پھر روزے کو ابتداے شب (شام) تک پورا کرو۔“ بعض لوگ عمر بھر روزے رکھتے تھے، اسلام نے اس کو بالکل ممنوع قرار دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاصام من صام الأبد“ (ابن ماجہ) ”جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے کبھی روزہ نہیں رکھا۔“ ٭ ایامِ صیام میں رات کو سوجانے کے بعد پھر کھانا حرام تھا، اسلام نے اس کو منسوخ قرار دیا جیسا کہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابتداے اسلام میں جب روزہ رکھتے اور افطار کا وقت آجاتا اور وہ افطار کرنے سے پہلے سو جاتے تو پھر رات بھر اور دن بھر دوسرے دن کی شام تک کچھ نہ کھاتے۔ اس اثنا میں قیس بن صرمہ انصاری جو روزہ سے تھے، افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے، انہوں نے کہا:ہے تو نہیں لیکن چل کر ڈھونڈتی ہوں ، قیس دن بھر کام کرکے تھکے تھے، سوگئے۔ بیوی آئیں توافسوس کرکے رہ گئیں ، جب دوپہر ہوئی تو قیس کو غش آگیا، یہ واقعہ آنحضرت سے بیان کیا گیا، اس وقت یہ آیت نازل ہو: ﴿وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَکُمْ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ﴾(البقرة: ۱۸۷) ”کھاؤ پیو، یہاں تک کہ رات کے تاریک خط سے صبح کا سپید خط ممتاز ہوجائے۔“ ٭ اسلام سے پہلے ایامِ صیام کی پوری مدت میں مقاربت سے محترز رہتے تھے لیکن چونکہ یہ ممانعت انسان کی فطری خواہش کے بالکل منافی تھی، اس لئے اکثر لوگ اس میں خیانت کے مرتکب ہوتے تھے۔ اسلام نے اس حکم کو صرف روزہ کے وقت تک محدود رکھا جو صبح سے شام تک کا زمانہ ہے۔ فرمایا: ﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاءِ کُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَيْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْاٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَکُمْ﴾(البقرة: ۱۸۷) ”تمہارے لئے روزہ کی شب میں اپنی بیویوں سے مقاربت حلال کی گئی، تمہارا ان کا ہمیشہ کا ساتھ ہے۔ خدا جانتا ہے کہ تم اس میں خیانت کرتے تھے، پس اس نے تم کو معاف کردیا۔ اب ان سے ملو جلو اور خدا نے تمہاری قسمت میں جو لکھا ہے، اس کو ڈھونڈھو“ ٭ اسلام میں بھول چوک اور خطأ ونسیان معاف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت ِمسلمہ کو اس شرف سے مخصوص کرتے ہوئے فرمایا: رفع عن أمتی الخطأ والنسيان“ ”میر ی اُمت سے خطا و نسیان معاف کیا گیا“