کتاب: محدث شمارہ 254 - صفحہ 8
ترکِ آسائش و لذائذ ِجسمانی ان کے ہاں بہترین عبادت تھی۔ قربان گاہ ، صلیب اور کنواری کے بت کے آگے گھٹنوں کے بل گھنٹوں جھکے رہنا، کئی کئی روز کھانا پینا چھوڑ دینا زہد و تقویٰ کی انتہا سمجھی جاتی تھی۔ ہندو جوگیوں نے تپسیا اور ریاضت ِشاقہ کی اور بھی عجیب و غریب رسم ایجاد کی۔ ان کے ہاں سالہاسال تک کھڑے رہنا، سخت دھوپ میں بغیر کسی سائے کے کھڑا رہنا، جاڑوں میں ننگے بدن رہنا، تمام جسم پر راکھ ملنا، دس دس برس تک ایک ہاتھ کو ہوا میں بلند رکھنا اور ایک ایک چلہ تک کھانا پینا بالکل چھوڑ دینا تقرب اِلی اللہ کے حقیقی راستے سمجھے جاتے تھے۔ ان میں جَینیوں کا فرقہ پیدا ہوا تو اس نے ناک، منہ اور کان کو بند رکھنا شروع کیا تاکہ ان کے تنفس کے ذریعے کسی کیڑے کو اذیت نہ ہو۔ ہندوؤں میں ’بدھ‘ کا فرقہ پیدا ہوا تو اس کے بھکشو جنگلوں اور پہاڑوں میں رہنے لگے اور گھاس،پتوں اور بھیک کے ٹکڑوں پر گزر کرنے کو زہد و اِتقا کی علامت سمجھنے لگے، جس کی معمولی سی یادگار اس وقت بھی برما میں موجود ہے۔ لیکن اسلام نے رہبانیت کی تمام شکلوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے یہ اعلان فرمایا: ”لا رهبانية فی الاسلام“ (اسلام میں کسی قسم کی رہبانیت نہیں ہے) یہود و نصاریٰ جس رہبانیت پر فخر کرتے تھے، اس کے متعلق یہ فرما کر رہبانیت کی حقیقت بے نقاب کردی کہ﴿وَرَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوْهَا مَا کَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ﴾ (الحدید:۲۷) ”یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد ہے، ہم نے ان کو اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا“ غرض اسلام نے تعذیب ِجسمانی اور ریاضت ِشاقہ کو خلاف ِمنشا دین اور انسان کی ضعیف گردن کے لئے بارِگراں سمجھ کر اس کو غلط قرار دیا اور پیغمبر اسلام کی تعریف میں یہی فرمایا:﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالاْغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَيْهٍمْ﴾ (الاعراف:۱۵۷) ”اور اس طوق و زنجیر کو جو شدید احکام کی، ان کی گردن پر پڑی ہوئی تھی، علیحدہ کرتا ہے۔“ اور روزوں کے حکم کے بعد خاص طور پر فرمایا : ﴿يُرِيْدُ اللّٰهُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرة:۱۸۵) ”خدا تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، سختی نہیں ۔“ ٭ اسلام نے صیام کے سلسلہ میں جو آسانیاں اُمت ِمسلمہ کے لئے پیش کی ہیں ، ان کے مطالعہ سے اس آیت کی پوری پوری تشریح سامنے آجاتی ہے، مثلاً اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں شب و روز کا روزہ ہوتا تھا، اسلام نے روزے کی مدت صرف صبح صادق سے شام تک قرار دی ﴿حَتّٰی يَتَبَيَّنَ لَکُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوْا